امریکی نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمتی عمل زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ امن معاہدہ افغانستان میں طالبان کی طرف سے مستقل جنگ بندی اور ملک میں طویل جنگ کے خاتمے کے عزم پر منحصر ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق افغانستان میں امن کی کوششوں کے سلسلے میں خلیل زاد ان دنوں کابل کے دورے پر ہیں اور انہوں نے یہ بات اتوار کو ایک مقامی ٹی وی چینل طلوع نیوز کے ساتھ گفتگو میں کہی۔
انہوں نے مزید کہا ہے کہ 'امن مذاکرات میں طالبان کی تمام تر توجہ افغانستان سے امریکی فوج کی واپسی پر ہے تاہم ہماری ترجیح دہشت گردی کا خاتمہ ہے۔ ہم اس وقت تک کوئی امن معاہدہ نہیں کریں گے جب تک طالبان مستقل جنگ بندی اور جنگ کے خاتمے کا عزم نہیں دکھاتے۔'
خلیل زاد نے مزید کہا ہے کہ 'ہم امن اور سیاسی حل کی تلاش میں ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ خطے میں امن ہی امریکی فوجوں کی واپسی کا امکان پیدا کرے۔'
خیال رہے کہ امن کی کوششوں کے سلسلے میں قطر میں طالبان کے ساتھ ملاقات سے قبل افغان نژاد امریکی شہری خلیل زاد آج کل کثیر ملکی دورے پر ہیں۔ وہ افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کے لیے ہفتے کو کابل پہنچے تھے۔
یاد رہے کہ افغانستان میں اس وقت لگ بھگ 14 ہزار امریکی فوجی نیٹو مشن کا حصہ ہیں۔ یہ فوجی القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ جنگ میں افغان فوج کو تربیت اور مدد فراہم کرتے ہیں۔
خلیل زاد کے افغانستان کے دورے سے قبل امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ 'افغان مسئلے کے حل کے لیے خلیل زاد ناصرف امن مذاکرات کو آگے لے کر چلنے کی کوشش کریں گے بلکہ طالبان کی انٹرا افغان مذاکرات میں شمولیت پر بھی زور دیں گے۔'
خلیل زاد کے مطابق مذاکرات کے مختلف ادوار کے بعد افغانستان میں امن کی بحالی کے امکانات روشن ہوئے ہیں۔
تاہم طالبان اب بھی افغان حکومت کے ساتھ مذاکرات کو تیار نہیں ہیں کیونکہ وہ اسے امریکہ کی کٹ پتلی قرار دیتے ہیں۔
طلوع نیوز کو دئیے گئے انٹرویو میں خلیل زاد نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے گزشتہ ہفتوں کے دوران انٹرا افغان مذاکرات کی کوششیں کی ہیں جن کے مثبت نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں تاہم اس قدر نہیں ہوئے جس قدر وہ چاہتے تھے۔
واضح رہے کہ رواں ماہ کے تیسرے ہفتے میں افغان حکومت اور طالبان کے درمیان دوحہ میں طے شدہ انٹرا افغان کانفرنس اس وقت ملتوی ہوگئی تھی جب طالبان نے کانفرنس میں شرکت کے لیے افغان صدارتی محل کی طرف سے جاری کی گئی ڈھائی سو مندوبین کی فہرست پر اعتراض کیا تھا۔