ہم جنہیں انتخابات میں بھاری اکثریت سے منتخب کرتے ہیں وہ کوئی معمولی لوگ تو نہیں۔ ہم انہیں اپنی قسمت کی باگ پکڑاتے ہیں۔ یہ ارکان ہمارے لئے قانون سازی کرتے ہیں ، صحت و صفائی ، روزگار ، دفاع، داخلہ اور خارجہ امور وغیرہ سے متعلق پالیسیاں بناتے ہیں ۔ اندرونِ ملک دھشت گردی سے نبرد آزمائی کے لئے گائیڈ لائن فراہم کرتے ہیں، انہی میں سے کوئی سپیکر، وزیرِ اعظم، وزیرِاعلی، وزیر بنتا ہے۔
انہی میں سے پارلیمانی اسٹینڈنگ کمیٹیوں کے سربراہ اور ارکان نامزد ہوتے ہیں جو مختلف محکمہ جاتی پالیسیوں اور افعال کا محاسبہ کرتے ہیں۔ انہی ارکانِ پارلیمان و صوبائی اسمبلیوں کو بیرونِ ملک نیلے پاسپورٹ پر اقوامِ متحدہ سے لے کر واشنگٹن اور بیجنگ تک دورے کر کے کشمیر، افغانستان سمیت خارجہ پالیسی کے مقاصد دنیا کو سمجھانے کا موقع ملتا ہے۔ یہی لوگ حکومتیں گراتے بناتے ہیں، بجٹ منظور کرتے ہیں اور اپنے اپنے ووٹرز یا خاندان کے لئے رول ماڈل بھی ہوتے ہیں۔
ان میں سے کوئی بھی انگوٹھا چھاپ نہیں۔ زیادہ نہیں تو کم ازکم پرائمری تک ضرور پڑھے لکھے ہوتے ہیں۔ بطور منتخب جمہوری نمائندہ تعلیمی اداروں میں مہمانِ خصوصی بنتے ہیں۔ طلبا کو اچھا پاکستانی بننے کا درس بھی دیتے ہیں۔ یہ بھی بتاتے ہیں کہ پاکستان کتنی قربانیوں سے حاصل ہوا اور اس ملک کو نئی نسل سے کیا کیا توقعات ہیں۔ یہ نمائندے اہم قومی دنوں پر منعقد ہونے والی شاندار تقاریب و پریڈوں میں مہمان ہوتے ہیں اور لمبی لمبی تقاریر سنتے اور کرتے ہیں۔
ان نمائندوں کو محمد علی جناح کے کچھ فرمودات اورعلامہ اقبال کے کم ازکم دو شعر وزن میں بھی یاد ہوتے ہیں جو انہوں نے کبھی پہلی دوسری جماعت میں ہی سہی مگر پڑھے ضرور ہوں گے۔ ان ارکانِ اسمبلی نے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر دس منٹ کے لئے سہی کسی نہ کسی چھوٹی موٹی لائبریری میں قدم رنجہ بھی فرمایا ہوگا۔ ہو سکتا ہے ان کے اپنے گھر یا دفتر میں پاکستان کے بارے میں کوئی نہ کوئی چھوٹی موٹی کتاب بھی شیلف پہ دھری ہو جو انہیں کسی نے تحفے میں دی ہو۔ کبھی نہ کبھی اس کتاب پر ان کا ہاتھ پڑا بھی ہوگا۔
ہم جنہیں بطور نمائندہ اپنا حال سنوارنے کی آس میں ووٹنگ کی لائن لگا کر منتخب کرتے ہیں ان میں سے ننانوے فیصد ارب پتی نہیں تو کروڑ پتی یا کم ازکم لکھ پتی تو ہوتے ہیں۔ ان کے بچے اچھے نہ سہی درمیانے اسکولوں میں ضرور پڑھ رہے ہوں گے۔ان بچوں کے ساتھ کبھی کبھی ان کی علمی ٹائپ مختصر بحث بھی ہوتی ہوگی۔ان ارکانِ اسمبلی کے پاس کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ نہ سہی مگر اینڈورائڈ فون تو ہوتا ہی ہوگا اور انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس فون پر حصولِ معلومات کے لئے انٹرنیٹ کی سہولت بھی ہے۔
ہم جنہیں اپنے بہتر مستقبل کی آس میں منتخب کرتے ہیں ان کے لئے ہر اسمبلی بلڈنگ میں ایک عدد لائبریری بھی ہوتی ہے جو اس آس میں کھلی رہتی ہے کہ کبھی تو کوئی بھولا بھٹکا آئے گا اور چند منٹ میرے ساتھ گذارے گا۔
یہ نمائندے جن جماعتوں کی نمائندگی کرتے ہیں ان میں سے کوئی خود کو پاکستان کی وراثتی امین کہتی ہے ، کوئی نیا پاکستان تعمیر کرنا چاہتی ہے ، کوئی اس میں اسلامی نظام نافذ کرنا چاہتی ہے ، کوئی اسے روشن خیال مساواتی وفاق بنانا چاہتی ہے۔ لہذا ہم توقع رکھتے ہیں کہ یہ جو کہہ رہے ہیں جانتے ہیں اور جو کر رہے ہیں اس کا پورا شعور رکھتے ہیں۔انہیں کم ازکم اتنی بنیادی آگہی ضرور ہوگی کہ پاکستان کیوں بنا، اس سفر میں کیا کیا مرحلے آئے، کیا کیا غلطیاں ہوئیں تاکہ ان کا دوبارہ اعادہ نہ ہو۔
ہو سکتا ہے کسی خوانچہ فروش کو یہ سب جاننے یا سمجھنے کی ضرورت نہ ہو مگر جسے ہم منتخب کر رہے ہیں کم ازکم اسے پاکستان کی تاریخ، اردگرد کے معاملات کے بارے میں بنیادی حقائق اورعلاقائی وعالمی جغرافیے کے بارے میں اتنی بنیادی معلومات تو ضرور ہونی چاہییں جتنی میٹرک کے کسی درمیانے درجے کے طالبِ علم کو ہوتی ہیں۔
اور اگر کوئی شبہہ ہو تو اردگرد پڑھے لکھے مشیروں، نائبین، خصوصی معاونین، حاشیہ بردار صحافیوں کی ایک فوجِ ظفر موج بھی ہوتی ہے۔ اسپیچ رائٹرز بھی دست بستہ حاضر ہوتے ہیں۔ کم ازکم بندہ انہی میں سے کسی سے پوچھ لے کہ ابنِ رشد صرف فلسفی، محقق اور سائنسداں ہی تھا یا مبلغ بھی تھا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ میں اسے مبلغ اور عالمِ دین کہہ دوں اور اہلِ علم کے مجمع کی آنکھیں پتھراجائیں۔ ذرا بتانا کہ جرمنی کا ہمسایہ صرف جاپان ہی ہے یا فرانس بھی ہے ۔کیا رمضان کا چاند دیکھنے کے لئے ایک معمولی دوربین ہی کافی ہے یا 'ہبل' نامی دنیا کی سب سے بڑی دوربین بھی رویت ِ ہلال کمیٹی کو خرید کے دی جا سکتی ہے؟ ایوب خان کا دور واقعی ترقی کے اعتبار سے سنہرا تھا یا آزادیِ اظہار اور سیاست کے اعتبار سے انتہائی گھٹن زدہ تھا۔
مانا کہ جو اونچی کرسی پر بیٹھتا ہے اسے سب معلوم ہوتا ہے پھر بھی بنیادی حقائق اور معلومات کو ماتحتوں سے ڈسکس کرنے میں کیا حرج ہے؟ اتنی سی بات تو اکبرِ اعظم کو بھی معلوم تھی کہ میں اگر پڑھا لکھا نہیں تو کیا ہوا میرے نو رتن تو پڑھے لکھے ہیں۔
پوچھنے سے علم گھٹتا نہیں بڑھتا ہے اور اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ بطور ایم پی اے، ایم این اے، چئیرمین، وزیر، مندوب یا حاکمِ اعلی کسی سی ایس ایس پاس ماتحت بیوروکریٹ سے بات کر رہا ہو یا اسے احکامات دے رہا ہو یا پالیسی بنا رہا ہو یا کسی سفیر سے مل رہا ہو تو کوئی اسے بنیادی قومی حقائق کے بارے میں چیلنج نہ کر سکے ۔
پوچھنے سے یہ شہرت بھی ہوتی ہے کہ یار دیکھو اتنی اہم کرسی پر بیٹھا ہے اور سب جاننے کے باوجود ڈبل چیک ضرور کرتا ہے۔ اتنے بڑے عہدے کے باوجود دیکھو طبیعت میں کتنی عاجزی ہے ۔اس کی قیادت پر پہلے بھی شک نہیں تھا اب تو حلم ، عاجزی اور علم پسندی پر بھی رشک آتا ہے ۔اگر یہ بھی بہت بڑا کام لگتا ہے اور اس میں بے عزتی کا خطرہ محسوس ہوتا ہے تو بندہ بات کرنے سے پہلے گوگل سے ہی پوچھ لے۔ گوگل سے بڑا رازداں کون ہے؟