Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’شمالی وزیرستان سے پانچ لاشیں برآمد‘

فوج کے بیان کے مطابق ان لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ کے مطابق صوبہ خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع شمالی وزیرستان سے پانچ  لاشیں ملی ہیں۔
پیر کو جاری ہونے والی ایک بیان میں بتایا گیا ہے بویا کے علاقے میں فوج کے گشت کے دوران ایک نالے سے پانچ لاشیں ملیں جنھیں گولیاں مار کر ہلاک کیا گیا تھا۔
بیان کے مطابق جس مقام سے یہ لاشیں ملیں ہیں وہ خارقمر کی اس چیک پوسٹ سے ڈیڑھ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے جو گذشتہ روز پشتون تحفظ موومنٹ اور فوجیوں کے درمیان کشیدگی کا مزکز بنا تھا۔
فوج کے بیان کے مطابق ان لاشوں کی شناخت کا عمل جاری ہے۔ 
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ ان لاشوں کا تعلق گذشتہ روز پیش آنے والے واقعے سے ہے یا نہیں۔ 
 واضح رہے کہ اتوار کی صبح شمالی وزیرِستان میں پاکستان فوج اور پششتون تحفظ موومنٹ کے اراکین کے درمیان جھڑپ کے نتیجے میں تین افراد ہلاک جبکہ پانچ فوجی اہکار زخمی ہوئے جس کی وجہ آئی ایس پی آر کے مطابق فوجی چوکی پر حملہ تھا۔
اس واقعہ کے بعد سے علاقے میں کرفیو کے نفاذ کی بھی اطلاعات ہیں۔ فون اور انٹرنیٹ سروس میں خلل پڑا۔
 آئی ایس پی آر نے ایک بیان میں بتایا تھا کہ ’شمالی وزیرستان کے علاقے بویا میں قائم خارقمر چیک پوسٹ پر محسن جاوید اور علی وزیر کی قیادت میں ایک گروپ نے حملہ کردیا جس کے نتیجے میں پانچ فوجی زخمی اور تین حملہ آور مارے گئے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ حملہ آوروں میں سے دس افرا زخمی بھی ہوگئے۔‘
دوسری جانب شمالی وزیر ستان کے واقعہ پر اپوزیشن رہنماؤں نے تشویش کا اظہار اور حقائق پارلیمان کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے ایک بیان میں کہا کہ شمالی وزیرستان کا واقعہ افسوسناک ہے۔ تمام حقائق پارلیمان کے سامنے آنے چاہئیں۔ اس واقعہ پر سیاست قومی جرم ہو گی۔ اس لئے تمام محب وطن صورتحال کی نزاکت دیکھتے ہوئے فوری طور پر اپنا کردار ادا کریں۔ 
شمالی وزیر ستان کے واقعہ پر اپوزیشن رہنماؤں نے تشویش کا اظہاراور حقائق پارلیمان کے سامنے لانے کا مطالبہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اپنے گھر میں لڑائی فساد اور افراتفری سے دشمنوں کو فائدہ ہو گا۔ حالات کی نزاکت، تدبر، سمجھداری اور قومی مفاد کی پاسداری کی متقافی ہے۔ خدارا پاکستان کے لیے اختلاف رائے کو دشمنی نہ بنایا جائے۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے پریس کانفرنس اور بیان میں کہا کہ وہ نہیں سمجھتے کہ کوئی منتخب نمائندہ ایسا حملہ کر سکتا ہے۔ پرامن اور منتخب لوگوں کو ا حتجاج کرنے کا حق ہے اور ان پر تشدد نہیں ہونا چاہیے۔ 
بلاول بھٹو کا کہنا تھا شروع دن سے کہہ رہا ہوں کے آپ ان کے نظریے سے اختلاف کر سکتے ہیں مگر اگر آپ فاٹا کے نوجوان سیاستدانوں کی ناراضیوں کو کم کرنے کی کوشش نہیں کریں گے تو پھر ماضی میں ہم سب نے دیکھا کہ مشرف کے دور میں بلوچستان میں کیا ہوا۔ مشرقی پاکستان میں کیا ہوا۔ اب اگر ہم اپنے ہی شہریوں، بچوں اور سیاستدانوں کو قانون کی بالادستی، حق اور جمہوریت کی بات کرنے پر غدار کہیں گے تو پھر معاملہ خطرناک راستے کی طرف جائے گا۔
مسلم لیگ ن کی سینئر نائب صدر مریم نواز کا ٹوئٹر پر بیان میں کہنا تھا کہ پاکستان اندرونی طور پر کشیدگی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ دونوں طرف اگر پاکستان کے بیٹے ہیں تو سیاسی، صحافتی حلقوں سمیت ریاست کے تمام اداروں کو ذمہ دارانہ کردار ادا کرنا ہوگا ورنہ ایک بار پھر پاکستان کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ہر پاکستانی کی جان قیمتی اور اس کا خون مقدس ہے۔ خون بہے تو حقائق قوم کے سامنے آنے چا ہئیں۔ محبت،امن اور مفاہمت ہتھیاروں سے کہیں زیادہ طاقت ور ہیں۔ کیا ہم احتجاج کچلنے اورآوزیں دبانے کی بہت بھاری قیمت ادا نہیں کر چکے؟ اللہ پاکستان پر رحم کرے ۔
    جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے ردعمل میں شمالی وزیرستان میں چیک پوسٹ پر پیش آنے والے واقعے پر افسوس اور دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ جمہوری دنیا میں لوگوں کو احتجاج کا حق حاصل ہے۔ ا نہیں اس سے روکنا اشتعال اور شدت کو جنم دیتا ہے۔ حکومت لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کی ذمہ دار ہے۔ 
 فضل٬ الرحما ن نے اپنے بیا ن میں یہ بھی کہا کہ حکومت اور ریاستی قوت آئین اور قانون سے بالاتر نہیں۔ عوام سے صبر و تحمل اور پرامن رہنے کی اپیل کرتے ہیں۔ 
 

شیئر: