وادی ہنزہ میں شیشپر گلیشیئر چار میٹر کی رفتار سے آگے بڑھ رہا ہے۔ تصویر: اے ایف پی
گلگت بلتستان مین واقع وادی ہنزہ میں کالے رنگ کے خطرناک گلیشیئر نے باسیوں کو بے چینی اور خوف میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہر روز مقامی افراد شیشپر گلیشیئر میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ کسی بھی ناگہانی صورتحال سے قبل از وقت نمٹا جا سکے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق ضلع ہنزہ کے ایک گاؤں سے 656 فٹ اونچائی پر موجود شیشپر گلیشیئر کسی بھی وقت سرک کر نیچے آسکتا ہے۔ مئی کی قدرے سخت شعاؤں نے چند دن قبل ہی گلیشیئر میں کچھ حرکت پیدا کی تھی جس سے برف اور ملبے کے ٹکڑے گاؤں میں آ گرے تھے۔
فہیم بیگ نامی مقامی چرواہے نے تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کو بتایا کہ گلیشیئرگذشتہ سال جولائی سے آگے بڑھ رہا ہے۔
انہوں نے بتایا ’میں گذشتہ مئی میں گلیشیئر سے اوپر واقع چراگاہوں پر اپنے یاک لے کر گیا تھا اور جب اکتوبر میں کچھ سامان لینے واپس نیچے آیا تو گلیشیئر نے وادی کو مکمل طور پر بلاک کر رکھا تھا۔‘
گلتستان بلتستان ڈزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر شہزاد بیگ کا کہنا ہے کہ شیشپر گلیشیئر کے حرکت کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ یہ مرکزی قراقرم سلسلے میں ایسے مقام پر واقع ہے جہاں زیر زمین ٹیکٹانک پلیٹس ویسے ہی حرکت کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ موسم میں تبدیلی کے باعث شدید برفباری ہوئی ہے جس سے گلیشیئر پر برف کا ذخیرہ بھی بڑھ گیا ہے۔
ہنزہ کے ڈسٹرکٹ کمشنر بابرصاحب دین کا کہنا ہے کہ گذشتہ جولائی سے 15 کلومیٹر طویل شیشپر گلیشیئر ڈھائی کلو میٹر تک آگے کی جانب بڑھا ہے اور اب یہ روزانہ چارمیٹر کی رفتار سے سرک رہا ہے۔
’اس رفتار سے بڑھتا رہا تو یہ قریباْ دو سال میں شاہراہ قراقرم تک پہنچ جائے گا، لیکن ہمیں امید ہے کہ گلیشیئرکا آگے بڑھنا بند ہو جائے گا۔‘
شیشیپر گلیشیئر کے آگے سرکنے سے مقامی آبادی کو ایک اور مسئلہ بھی درپیش ہے۔ اس کے قریب واقع مچوور نامی گلیشیئر سے پگھلنے والا پانی اب دریا تک نہیں پہنچ پا رہا، جس کی وجہ سے مچوور وادی میں ایک جھیل بن گئی ہے۔
گذشتہ ماہ مچوور وادی کے حوالے سے خطرہ تھا کہ گلیشیئر سے بننے والی جھیل میں زیادہ پانی جمع ہونے کے باعث سیلاب آسکتا ہے۔ لیکن ہنزہ کے ڈسٹرکٹ کمشنر صاحب دین کے خیال میں اب یہ خطرہ ٹل چکا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت بڑھنے سے شیشپر گلیشیئر میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جس سے مچوور گلیشیئر سے آنے والے پانی کو دریا تک پہنچنے کا راستہ مل گیا ہے۔
تاہم گلیشیئر کی دراڑیں چوڑی ہونے سے پانی کے بہاؤ میں تیزی آسکتی ہے جس سے اچانک سیلاب بھی آسکتا ہے۔ ایسی صورتحال میں 72 گھروں کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے۔
صاحب دین کا کہنا ہے کہ گاؤں والوں کو آگاہ کر دیا گیا ہے کہ ایسے حالات پیدا ہونے کی صورت میں انہیں اپنے گھر خالی کر کے کس جگہ منتقل ہونا ہو گا۔
انہوں نے بتایا کہ صورتحال کی نگرانی کرنے لے لیے کنڑول روم بھی قائم کردیا گیا ہے۔
شمالی پاکستان میں سیلاب سے جڑے خطرات کو کم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے تحت جاری ’گرین کلائیمیٹ فنڈ‘ سے پاکستان کو 3.7 کروڑ ڈالر کی امداد ملی تھی جسے وقت پر بروئے کار نہ لایا جا سکا۔
ایک سال کی تاخیر کے بعد اب فنڈ سے ملی رقم کو استعمال میں لایا جا رہا ہے جس سے ایسے آلات لگائے جائیں گے جو پانی کے اخراج اور گلیشیئر کی حرکت کو مانیٹر کر سکیں۔
فی الحال سیٹلائٹ سے لی گئی تصاویر اور ڈرون کی مدد سے کی جانے والی نگرانی کے ذریعے انتباہی نظام قائم کیا جائے گا۔
بابرصاحب دین کا کہنا تھا کہ اس نظام کے ذریعے ’ہم خطرے کا تعین کر سکتے ہیں لیکن یہ 100 فیصد درست نہیں ہو گا۔‘
گلگت بلتستان میں 16 اورخیبر پختونخوا میں ایسی آٹھ وادیاں ہیں جنہیں گلیشیئر کے پگھلنے سے خطرات لاحق ہیں۔
جہاں حسن آباد کے باسیوں کو ان کے گھر تباہ ہو جانے کا خوف ہے وہاں دوسری طرف علی آباد نامی ایک اورعلاقے کے باسیوں کو ڈر ہے کہ گیلشیئر مزید آگے بڑھنے سے ایک ماہ کے اندر ان کے علاقے کو پانی کی رسائی منقطع ہو جائے گی۔
علی آباد کو پانی گلیشیئر سے اوپر واقع چشموں سے ایک بڑے پائپ کے ذریعے پہنچتا ہے۔ علی آباد کے رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ آئندہ 20 روز میں شیشپر گلیشیئر پانی کے پائپ کو تباہ کر دے گا۔
ارمان علی نامی کسان ہر روز گلیشیئر کا جائزہ لیتا ہے کہ کہیں وہ پائپ کے قریب تو نہیں آ گیا۔ علی آباد میں مقامی کسانوں نے کھیتوں کو سیراب کرنے کے لیے بہت مشکلوں سے آبی گزرگاہیں بنائی ہوئی ہیں، اب کسانوں کو ان گزرگاہوں کے تباہ ہونے کا خطرہ لاحق رہتا ہے۔
ارمان علی کا کہنا تھا کہ پانی کی کمی ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے۔ ’لیکن گلیشیئر کا مقابلہ کون کر سکتا ہے۔ یہ تو اپنی مرضی کے مطابق چلتا ہے۔‘
گلیشیئر کیا ہے؟
سردیوں میں برف باری کے بعد جو برف جم جاتی ہے وہ موسم تبدیل ہونے کے ساتھ پگھل جاتی ہے تاہم کچھ سرد مقامات ایسے بھی ہوتے ہیں جہاں سردیوں کے دوران جمنے والی برف درجہ حرارت کم ہونے کی وجہ سے عمل تبخیر سے نہیں گزرتی اور اس کا کچھ حصہ منجمد رہتا ہے جو اگلے سال تک جاتا ہے ، پھر مزید برف جمتی ہے اور یوں اس کا حجم بڑھتا جاتا ہے۔ برف کی اس قسم کو گلیشئر کہا جاتا ہے، زیادہ وقت گزرنے پر یہ دانے دار شکل اختیار کرلیتی ہے جبکہ بالائی برف کے دبائو سے سخت قلمی شکل میں بھی بد ل جاتی ہے، برف کی یہ قسم عام جمنے والی برف سے یک سر مختلف ہوتی ہے ، اس کے ذرات کے درمیان ہوا مقید ہوجاتی ہے اس لیے اس کی رنگت دودھیا ہوتی ہے۔
گلیشیئر کا سرکنا
جب سالہاسال تک جمنے والی برف کی تہہ زیادہ دبیز ہو جاتی ہے تو اس کا نچلا حصہ زمین کی گرمی کے باعث نرم ہو جاتا ہے اور بعض اوقات پھسلنا شروع کر دیتا ہے، جسے گلیشئر کا سرکنا بھی کہا جاتا ہے۔ گلیشیئر اگر جسامت میں بڑا ہو تو اس کی حرکت اتنی ہی سست ہوتی ہے، کم حجم کا گلیشیئر تیزی سے حرکت کرتا ہے، کولوراڈو میں ان کی رفتار ایک فٹ یومیہ جب کہ انٹارکٹکا میں تین فٹ ہے۔
پاکستان میں گلیشیئر
پاکستان میں بھی گلیشیئر پائے جاتے ہیں جو حرکت بھی کرتے ہیں ایسے گلیشیئر سیاچن اور شمالی علاقہ جات میں موجود ہیں جو موسمِ گرما میں حرکت بھی کرتے ہیں، پڑوسی ملک انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں بھی گلیشیئر پایا جاتا ہے۔