پاکستان میں حزب اختلاف کی سیاسی جماعتوں نے آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیے میں چیئرمین سینیٹ کو آئینی طریقے سے ہٹا کر سینیٹ کے چیئرمین کے لیے متفقہ امیدوار لانے کا فیصلہ کیا ہے۔
بدھ کو اسلام آباد میں جمعیت علمائے اسلام کے زیراہتمام منعقدہ کل جماعتی کانفرنس کے اعلامیے میں خیبر پختونخوا میں ضم کیے گیے سابقہ قبائلی علاقہ جات میں صوبائی اسمبلی کے الیکشن کے دوران فوج کو پولنگ سٹیشنوں کے اندر تعینات کرنے کی مخالفت کی گئی ہے۔
کل جماعتی کانفرنس نے مطالبہ کیا ہے کہ وزیرستان میں پیش آئے حالیہ واقعات کی تحقیق اور حقائق سامنے لانے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے۔ اے پی سی نے وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق اپوزیشن کے تمام ممبران نے الیکشن 2018 میں ہونے والی دھاندلی کی تحقیقات سے متعلق بنائی گئی پارلیمانی کمیٹی سے فی الفور مستعفی ہونے کا فیصلہ کیا کیونکہ جان بوجھ کر اس کمیٹی کو غیر فعال بنا دیا گیا ہے۔ اجلاس نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ 25 جولائی 2019 کو دھاندلی زدہ انتخابات کے خلاف متفقہ طور پر یوم سیاہ منایا جائے گا۔
آل پارٹیز کانفرنس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر احتجاج جاری رکھیں گی اور عوام کو جعلی مینڈیٹ، دھاندلی زدہ اور نااہل حکومت کی پیدا کردہ اذیت ناک مہنگائی اور معاشی مشکلات کے کرب سے نجات دلانے کی بھرپور کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں پہلے مرحلے میں تمام سیاسی جماعتیں عوامی رابطہ مہم شروع کریں گی۔
اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف سیاسی بنیادوں پر بنائے گئے ریفرنسز کو عدلیہ پر حملہ قرار دیا اور ان ریفرنسز کو فوری طور پر واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
اے پی سی نے عدلیہ میں اصلاحات، ججوں کے تقرر کے طریقہ کار پر نظر ثانی اور ازخود نوٹس استعمال کرنے کے اختیارات سے متعلق قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔
اے پی سی نے لاپتا افراد کی بازیابی کے لیے قانون سازی کا مطالبہ کیا۔ جو لوگ سکیورٹی اداروں کی تحویل میں ہیں اور انہیں کسی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور تشدد کے استعمال کے خلاف قانون سازی کی جائے۔
خیبر پختونخوا میں ضم ہونے والی قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے لیے فوج کو پولنگ سٹیشنز کے اندر تعیناتی اور سمری ٹرائل کا اختیار دینے کی مخالفت کی ہے اور اس نوٹی فیکیشن کو فوری واپس لینے کا مطالبہ کیا۔
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ سابق قبائلی علاقہ اور خیبر پختونخوا میں قائم حراستی مراکز کو عام جیلوں میں تبدیل کیا جائے اور ان میں قید افراد پر کھلی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔
اجلاس نے میڈیا پر اعلانیہ اور غیر اعلانیہ پابندیوں اور سنسر شپ کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ان پابندیوں کو فوری ہٹایا جائے۔
اجلاس نے صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے اور اس حوالے سے قانون سازی کی ضرورت پر زور دیا۔
اے پی سی نے پارلیمانی نظام حکومت اور اٹھارہویں ترمیم ختم کرنے کی کوششوں کی مذمت کی اور اعلان کیا کہ ایسے کسی بھی اقدام کی مذمت کی جائے گا جس کا مقصد پارلیمانی نظام حکومت کو کمزور کرنا ہو گا۔
اے پی سی نے ملک میں جاری احستاب کو جانبدارانہ اور یک طرفہ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا اور منصفانہ اور غیر جانبدارانہ احتساب پر زور دیا۔
اے پی سی نے احتساب کا ایک نیا اور موثر قانون بنانے کا مطالبہ کیا جس کے تحت مخصوص طبقوں کو نہیں بلکہ تمام افراد کا ایک ہی قانون اور ادارے کے تحت احتساب کیا جائے۔
اے پی سی نے کہا ہے کہ اداروں کو ملکی سیاست میں ہرگز مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔
آل پارٹیز کانفرنس نے قرضوں سے متعلق انکوائری کمیشن کو بھی مسترد کرتے ہوئے اسے پارلیمان پر حملہ اور ایسے کمیشن کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا ہے۔
اے پی سی نے قرضوں سے متعلق حقائق عوام کے سامنے لانے کے لیے پارلیمانی کمیٹی تشکیل دینے کا مطالبہ کیا جس میں حکومت اور اپوزیشن کے نمائندوں کی تعداد برابر ہو اور یہ کمیٹی 2000 سے لے کر اب تک تمام گرانٹس اور قرضوں کے حصول اور اس کے استعمال کی تحقیقات کرے۔
اجلاس نے نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کو غیر ضروری ادارہ قرار دیا۔ قومی اقتصادی کونسل کی موجودگی میں ایسے کسی ادارے کی ضرورت نہیں۔ یہ اقدام اداروں کو متنازع بنانے کی کوشش ہے۔
کل جماعتی کانفرنس نے سابق وزیراعظم نواز شریف سے ملاقات پر پابندی اور ان کے ذاتی معالج کو ان تک رسائی نہ دینے کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ قانون کے مطابق نواز شریف، آصف علی زرداری اور دیگر اسیران کی زندگی کے بنیادی دستوری اور قانونی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔
کانفرنس نے موجودہ حکومت کے آئین پاکستان کے اسلامی دفعات کے خلاف اقدامات پر گہری تشویش کا اظہار کیا۔