انڈونیشیا: ’خودکش بمبار‘ بچوں کے لیے بحالی پروگرام
انڈونیشیا: ’خودکش بمبار‘ بچوں کے لیے بحالی پروگرام
جمعرات 4 جولائی 2019 3:00
انڈونیشیا میں بچوں کو خود کش حملوں کے لیے استعمال کیا گیا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
2018 میں خود کش حملوں کی ایک خوفناک لہر نے انڈونیشیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسی دوران نو سالہ میلہ بھی اپنے خود کش حملہ آوور والدین کے ساتھ موٹر سائیکل پر تھیں تاہم خود کو اڑانے سے عین قبل میلہ کے والدین نے اسے موٹر سائیکل سے پھینک دیا اور وہ بچ گئیں۔
شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ کے حملوں کے بعد انتہا پسندانہ نظریات کی حامل یتیم میلہ (فرضی نام) کے مستقبل کے بارے میں خدشات پائے جا رہے تھے تاہم انڈونیشیا میں مشتبہ دہشتگردوں کے بچوں کی بحالی کے نئے پروگرام کے تحت میلہ اور ان جیسے کئی دوسرے بچوں کا مستقل بہتربنایا جا سکتا ہے۔
میلہ کا شمار خود کش حملہ آووروں کے بچوں کے اس چھوٹے میں گروپ میں ہوتا ہے جنہیں انڈونیشیا کے دارلحکومت جکارتہ کے ایک حفاظتی مکان میں منفرد حکومتی سکیم کے تحت سماجی اور نفسیاتی دیکھ بھال فراہم کی جا رہی ہے۔
دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک ’خاندانی حملوں‘ کے بڑھتے ہوئے خطرات اور دولت اسلامیہ کے شام سے واپس ملک لوٹنے والے جہادیوں کے چیلنچ سے نبرد آزما ہے۔
جکارتہ میں بچوں کی تربیت کے لیے حکومتی سطح پر بنائے گئے سنٹر کی سربراہ نینگ ہریانی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کے بتایا کہ ’یہاں بچوں کو سنبھالنا آسان نہیں کیونکہ وہ انتہا پسندی پر یقین رکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انڈونیشیا میں کیے گئے حملے ٹھیک تھے۔‘
ہریانی کے مطابق ’ان بچوں کو پڑھایا گیا تھا کہ جہاد جنت میں جانے کے لیے لازمی ہے اور جہاد کرتے ہوئے آپ کو اسلام پر یقین نہ رکھنے والوں کو مارنا ہے۔ ان کی سوچ کو بدلنا انتہائی مشکل تھا۔‘
اس سنٹر میں سماجی کارکن اور ماہر نفسیات بچوں کو سماجی سرگرمیوں میں حصہ لینے کی تربیت دیتے ہیں اور اس چیز پر زور دیا جا رہا ہے کہ وہ روزانہ پڑھیں، مسجد جائیں اور مناسب وقت کھیلیں کودیں۔
میلہ کے لیے اس ترتیب کا مقصد اپنے والدین کی جدائی کے غم سے باہر نکل کر زندگی گزارنے کا ایک بہتر رستہ تلاش کرنا ہے۔
دیگر مشتبہ دہشت گردوں بشمول وہ جو گزشتہ برس انڈونیشیا کے علاقے سرابایا میں ہونے والے پرتشدد حملوں میں ملوث تھے کے بچوں کو بھی یہاں تربیت دی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’ہومن رائٹس واچ‘ کے کارکن انڈریاس ہرسونو کہتے ہیں کہ بچوں کو اس طرح سے تربیت دینا ناقابل یقین اور لاجواب ہے۔
ان کے مطابق انڈونیشیا میں 2018 میں پہلی بار والدین کی جانب سے اپنے بچوں کو خود کش حملوں میں استعمال کیا گیا تھا۔ ’ان حملوں میں بچ جانے والے بچوں کو ان کے خاندان کی جانب سے سالہا سال جہاد کی تربیت دی جاتی رہی لہذا اب ہمارے لیے ان بچوں کا یقین جیتنا آسان نہیں لیکن سٹاف کا ماننا ہے کہ بچوں کو پڑھانے کا ان کا طریقہ کار ان کی سوچ بدل سکتا ہے۔
اس سنٹر میں بچوں کو انڈونیشیا کے قومی ہیروز، آپسں میں اتحاد و اتفاق، اقلیتیوں کے احترام اور قومی نظریے کے بارے میں پڑھایا جاتا ہے۔
سماجی کارکن موسفیہا ہندیانی کہتے ہیں کہ ’ہم اب بھی ان کو یہی پڑھاتے ہیں کہ قرآن زندگی کے ہر پہلو کی بنیاد ہے اور ان کو اس پر یقین کرنا چاہیے لیکن اگر آپ دوسروں کے حقوق کو پامال کرتے ہیں تو پھر یہ ٹھیک نہیں۔‘
ان کے مطابق مشتبہ دہشت گردوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت کرنا کم ہی ریاستوں کی ترجیح رہا ہے، وہ ایسا پہلی بار کر رہے ہیں۔ انتظامیہ کے مطابق اس سنٹر میں اب تک تقریباً 200 بچوں کو تربیت دی جا چکی ہے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس انڈونیشیا میں ہونے والے خود کش حملوں میں دہشت گردوں کی جانب سے بچوں اور خواتین کو استعمال کیا گیا تھا۔ ان حملوں کے نتیجے میں بیشتر شہری ہلاک ہوئے تھے۔