’باہر نکلنے والے کو گولی ماردی جائے گی، کراچی اور حیدرآباد میں مارشل لا نافذ کردیا گیا ہے اور کرفیو لگا دیا گیا ہے‘
یہ اعلان 21 اپریل 1977 کی شام ریڈیو پاکستان سے ہوا۔ حکومت مخالف پاکستان قومی اتحاد کے ہنگاموں نے کراچی کے معمولات زندگی کو معطل کر کے رکھ دیا۔ وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹونے فوج سے مدد طلب کی۔
سندھ کے دو بڑے شہروں میں پہلے ہی مارشل لا نافذ تھا۔ باقی ملک میں مارشل لا پانچ جولائی کو لگا۔ ضیا مارشل لا کا سندھ نے فوری طور پرنہ خیرمقدم کیا اور نہ اس کے خلاف مزاحمت کی۔ بھٹو کی آمرانہ روش سے بیزار حلقے کو تھوڑا سا خوش گوار لگا۔ اس بات کا اندازہ جنرل ضیا کو تھا۔ اسی لیے ہی انہوں نے مارشل لا نافذ کرنے میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔
’نادان دوستوں‘ نے بھٹو کو قبل از وقت انتخابات کرانے کا مشورہ دیا تھا۔ جب انتخابات کا عمل شروع ہوا تو اچانک صورت حال بدل گئی۔ پہلے سے ہی منصوبہ تھا کہ انتخابات کے بعد دھاندلی کو جواز بنا کر بھٹو کے خلاف تحریک چلائی جائے۔ پی این اے نے سات مار چ کے انتخابات میں دھاندلی کے الزام پر تحریک شروع کی جس سے مارشل لا کی راہ ہموار ہوئی۔
پیپلز پارٹی کے پرانے کارکن ذوالفقار قادری کو یاد ہے کہ لاڑکانہ میں بھٹو کے مقابلے میں پی این اے کے امیدوار مولانا جان محمد عباسی تھے۔ وہ کسی طور جیت نہیں سکتے تھے لیکن اس وقت کے ڈپٹی کمشنر خالد کھرل اور ایس ایس پی پنجل جونیجو نے اپنی کارکردگی دکھائی اور مولانا عباسی کو گرفتار کر کے کاغذات نامزدگی داخل کرنے سے روک دیا گیا۔
وزیراعظم بھٹو، ممتاز بھٹو اور نواب احمد سلطان چانڈیو کو بلامقابلہ منتخب قرار دیا گیا۔ ملک بھر میں انیس امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے۔

انتخابات کے ایک ہفتے کے اندر تحریک شروع ہوگئی۔ جمعیت علمائے پاکستان اور جماعت اسلامی کے رجحانات رکھنے والے سندھ کے دو بڑے شہر کراچی اور حیدرآباد بھٹو مخالف تحریک کے گڑھ بن گئے۔ ان دو شہروں میں فوجیوں نے احتجاج کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ حیدرآباد میں خواتین بھی سڑکوں پر نکل آئی تھیں۔ سندھ میں آباد پٹھان نیپ کی دوصوبائی حکومتیں ختم کرنے، نیپ کے رہنمائوں کے خلاف بغاوت کا مقدمہ چلانے پر ناراض تھے۔ یہ مقدمہ حیدرآباد سنٹرل جیل میں ہی خصوصی ٹریبونل میں زیر سماعت تھا۔
مزید پڑھیں
-
سہیل وڑائچ کا کالم: پھر آگیا پانچ جولائیNode ID: 424666
سندھ نے مارشل لا قبول نہیں کیا اور نہ ہی خوشی کا اظہار کیا، بس خاموش رہا۔ پگاڑا پی این اے میں ہی تھے۔ جی ایم سید، حیدر آباد کے میر برادران میرعلی احمد اور میر رسول بخش تالپور کے علاوہ سندھ کے وڈیرے اور سیاست دان پیپلز پارٹی کے ساتھ تھے جس کی وجہ اقتدار کی کشش یا پھر حکومت کا ڈر تھا۔
کراچی اور حیدرآباد کو بھٹو کے خلاف استعمال کرنے کے لیے خصوصی طور پر منتخب کیا گیا تھا۔ اصغر خان یہاں بڑے بڑے جلسے کر چکے تھے۔ مارچ کے دوسرے ہفتے میں کراچی اور حیدر آباد میں 73 افراد ہلاک ہوئے۔ دو شہروں کو چھوڑ کر باقی سندھ بھر میں کہیں بھی احتجاج کی صورت حال نہ تھی۔
تحریک شروع ہونے سے پہلے سندھی بولنے والوں میں بھٹو مخالف رجحان موجود تھا۔ جی ایم سید مسلسل قید میں رہے۔ باقی قوم پرست عبدالواحد آریسر، کمیونسٹ پارٹی کے کامریڈ جام ساقی، نذیر عباسی، ڈاکٹر اعزاز نذیر، کسان لیڈر ماندھل شیر، رسول بخش پلیجو، نیپ کے حامیوں سمیت سینکڑوں کارکن مختلف اوقات میں پابند سلاسل رہے۔ ان کے خلاف مقدمات بنائے گئے یا کئی ماہ تک ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت قید رہے۔ قوم پرست بھٹو حکومت کے مخالف ضرور تھے لیکن مارشل لا کے حامی بھی نہیں اورنہ ہی پی این اے کی تحریک کا حصہ بنے۔
پروفیسر ڈاکٹر امداد چانڈیو تب سیاسی کارکن تھے۔ اس وقت کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ بھٹو نے کبھی اس امر کا جائزہ نہیں لیا کہ کوئی مخالف ہے تو کیوں ہے؟ یہ جانے بغیر یکساں فارمولہ بنایا کہ بس جو مخالف ہے وہ مخالف ہے۔ اس کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو نے خصوصاً سندھ میں اپنے فطری اتحادیوں کو بھی مخالف کیمپ میں دھکیل دیا اور سیاسی طور پر تنہا ہو گئے۔
