کلبھوشن جادھو کیس کا فیصلہ 17 جولائی کو دن تین بجے کھلی عدالت میں سنایا جائے گا۔ فوٹو اے ایف پی
انڈیا کے مبینہ جاسوس کھلبوشن جادھو تک انڈین سفارت کاروں کو رسائی ہو نی چاہیے اور پاکستان کیا کھلبھوشن کو سزائے موت دینے کا مجاز ہے یا نہیں ؟ اس بابت آئندہ ہفتے (17 جولائی ) عالمی عدالتِ انصاف کا فیصلہ آنے والا ہے۔
اس سے پہلے کہ یہ خبر بھی ہر روز امڈنے والے بے خبری کے سیلاب میں غتر بود ہو جائے۔ بین الاقوامی سماعتی اداروں میں ہم اپنی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو اچھا ہے۔ فائدہ یہ ہو گا کہ اگر مرضی کا فیصلہ نہ آئے تو جھٹکا کم لگے۔
وجہ یہ ہے کہ لگ بھگ دو برس پہلے تمام سیاستداں، ٹیلی مبصرین اور لیگل ایگلز کھلبوشن کی سزائے موت پر عالمی عدالتِ انصاف کا عارضی حکمِ امتناعی آنے سے پہلے پہلے میز پر مکے مار مار کے کہہ رہے تھے کہ کھلبوشن کیس تو عالمی عدالت کے دائرے سے ہی باہر ہے اور قونصلر تک رسائی کا وی آنا کنونشن جاسوسوں اور دہشت گردوں پر لاگو ہی نہیں ہوتا۔لہٰذا یہ کیس ابتدائی سماعت میں ہی اڑ جائے گا۔
مگر ہمارا ماضی کا ریکارڈ بہت زیادہ خوش کن نہیں۔
دس اگست انیس سو اٹھانوے کو پاک بحریہ کا غیر مسلح طیارہ اٹلانٹک سندھ اور گجرات کی انتہائی جنوبی سرحد پر بھارتی فضائیہ نے مار گرایا اور عملے کے تمام سولہ افراد ہلاک ہوگئے۔
پاکستان اکیس ستمبر 1999 کو یہ کیس عالمی عدالتِ انصاف میں لے کر گیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ طیارہ سرحد کے اندر پرواز کر رہا تھا۔ایک غیر مسلح طیارے کو نشانہ بنانا جنگی اقدام اور ہوابازی کے بین الاقوامی قوانین کی کھلی پامالی ہے۔ انڈیا سے چھ کروڑ ڈالر ہرجانہ کا دلایا جائے۔
اس سماعت کے دوران حکومتِ پاکستان کی جانب سے شریف الدین پیرزادہ کو ایڈہاک جج نامزد کیا گیا اور عزیز منشی نے پاکستان کی جانب سے وکالت کی۔
عدالت کی جانب سے پاکستانی درخواست مسترد ہونے کے بعد ایم ڈی طاہر ایڈووکیٹ نے لاہور ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی کہ حکومتِ پاکستان اپنا مقدمہ پرزور انداز میں پیش کرنے میں ناکام رہی اور اس مقدمے اور وکلا کی فیسوں پر قومی خزانے کے ڈھائی کروڑ روپے خرچ ہوئے لہٰذا عدالت جواب طلبی کرے۔
جسٹس عبدالقیوم نے درخواست ڈسمس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی جانب سے بھرپور قانونی وکالت ہوئی، رقم ٹھیک مد میں خرچ ہوئی اور اس کیس کے نتیجے میں عالمی فورم پر مسئلہ کشمیر اجاگر کرنے میں مدد ملی (گویا ہارے بھی تو بازی مات نہیں)۔
ہار جیت کا معاملہ محض عالمی عدالتِ انصاف تک محدود نہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان نے جب جب عالمی بینک کی ثالثی چاہی اس کی جانب سے وکالت بااثر نہ ہو پائی۔
مثلاً جب انڈیا نے دریائے چناب پر ساڑھے چار سو میگاواٹ کا بھاگلیار ہائیڈرو منصوبہ شروع کیا تو پاکستان نے عالمی بینک سے غیر جانبدار ثالث نامزد کرنے کی درخواست کی۔
بارہ فروری2007 کو ثالث نے رولنگ دی کہ بھارت پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش ساڑھے سینتیس ملین مکعب میٹر سے کم کرکے ساڑھے بتیس ملین مکعب میٹر تک لانے کے لیے ڈیزائن میں تبدیلی کرے۔
انڈیا نے جھٹ یہ تجویز مان لی۔ پاکستان اگرچہ تکنیکی لحاظ سے مقدمہ جیت گیا مگر اس کا مطالبہ تو چھ اعشاریہ بائیس مکعب میٹر کے ذخیرے کا تھا۔ تو عملاً کون کامیاب رہا؟ بالآخر دو ہزار دس میں دونوں ممالک نے بھاگلیار کو متنازع آبی منصوبوں کی فہرست سے خارج کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس دوران 2004 میں بھارت نے کشمیر میں 45 میگاواٹ کے نیموبازگو ہائیڈل منصوبے پر کام شروع کردیا۔ جب تقریباً نصف تعمیراتی کام ہو گیا تب یوسف رضا گیلانی کی حکومت کو کچھ خیال آیا کہ اس منصوبے کو بھی عالمی ثالثی کے حوالے کیا جائے پھر اچانک بھاگلیار منصوبے کی ثالثی کا حشر نظروں کے سامنے گھوم گیا۔
لیکن قربانی کا بکرا بھی تو چاہیے۔ چنانچہ 1993 سے 2011 تک رہنے والے پاکستان کے واٹر کمشنر جماعت علی شاہ کو نشانہ بنایا گیا۔ 2010 میں سب سے پہلے جماعت الدعوۃ نے الزام لگایا کہ جماعت علی شاہ تنخواہ تو پاکستان سے لیتے ہیں مگر وفادار انڈیا کے ہیں۔
پھر معلوم ہوا کہ جماعت علی شاہ 2011 میں سبکدوش ہوگئے، پھر ان کے خلاف مبینہ تحقیقات کی خبریں آنے لگیں، پھر کسی نے کہا وہ کینیڈا فرار ہوگئے۔
2012 میں انہوں نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ بھاگلیار ڈیم پر پاکستان کا کیس پرویز مشرف نے کمزور کیا کیونکہ وہ انڈیا سے تعلقات بحال رکھنا چاہتے تھے۔ اور اگر میرے بارے میں آئندہ کسی نے الزام تراشی کی تو میں عدالت میں لے جاؤں گا۔تب سے امن ہے۔
2013 سے پاکستان انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں دریائے جہلم پر ساڑھے تین سو میگاواٹ کے کشن گنگا ہائڈل پروجیکٹ اور دریائے چناب پرساڑھے آٹھ سو میگاواٹ کے رتلے پروجیکٹ کو عالمی بینک کے ثالثی نظام کے زریعے رکوانے کے لیے کوشاں ہے۔
2016 میں جب مودی نے سندھ طاس معاہدہ منسوخ کرنے کی دھمکی دی تو عالمی بینک نے پاکستان کے کہنے پر ایک غیر جانبدار ثالث کی تقرری پر رضامندی بھی ظاہر کردی تھی مگر اچانک امریکی دباؤ کے سبب عالمی بینک نے پلٹا کھایا اور زور دیا کہ پہلے دونوں ممالک آپس میں بیٹھ کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کریں اور ناکامی کی صورت میں ہم سے رجوع کریں۔ پھر جانے کیا ہوا کہ رجوع کرنے کی نوبت ہی نہیں آئی۔
22 مارچ 2017 کو پاکستان کانکنی کے حقوق کے بارے میں سرمایہ کاری تنازعوں سے متعلق بین الاقوامی ادارے میں بھی ایک کیس ہار گیا۔ ہرجانے کا یہ مقدمہ ریکوڈک میں کام کرنے والی بین الاقوامی کمپنی ٹیتھیان کی جانب سے دائر کیا گیا تھا کیونکہ حکومتِ بلوچستان نے اس کمپنی کے کان کنی حقوق منسوخ کر دیے اور پھر سپریم کورٹ نے بھی 1993 سے 2011 تک ریکوڈک میں کان کنی سے متعلق تمام معاہدات کو 2013 میں کالعدم قرار دے دیا۔
مگر بین الاقوامی ادارے نے پاکستانی اعلیٰ عدالت کے فیصلے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ٹیتھیان کمپنی کی جانب سے ہرجانے کا دعوی تسلیم کرلیا۔
پاکستان نے سوئس بینکوں سے آصف زرداری کے مبینہ چھ کروڑ ڈالر واپس لانے کے لئے جانے کتنے ملین ڈالر اور ایک عدد وزیرِاعظم بھی قربان کردیا مگر مقدمہ کسی نتیجے پر پہنچے بغیر بالآخر سوئس حکومت نے حکومتِ پاکستان کے بھر بھر پور تعاون سے داخلِ دفتر کردیا۔
دیکھنا یہ ہے کہ17جولائی کو پاکستان اپنا موقف عالمی عدالتِ انصاف سے منوا سکتا ہے یا پھر وہی ڈھاک کے تین پات۔