انڈیا میں سنہ 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں کی منصوبہ بندی کے ملزم پاکستانی نژاد کینیڈین شہری تہور حسین رانا کو امریکہ نے انڈیا کے حوالے کر دیا ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق انڈیا کی تاریخ کے اس مہلک ترین حملے کی سہولت کاری کے ملزم تہور حسین رانا کو جمعرات کو دارالحکومت نئی دہلی پہنچایا گیا۔
یہ کسی بھی دہشت گردی کے مقدمے میں امریکہ سے اس نوع کی پہلی حوالگی ہے۔
مزید پڑھیں
-
ایپل نے 600 ٹن آئی فونز ٹیرف لگنے سے پہلے انڈیا سے کیسے نکالے؟Node ID: 888174
64 سالہ تہور رانا جو ڈاکٹر سے کاروباری شخصیت بنے تھے، وہ انڈیا کو نومبر 2008 میں ہونے والے ممبئی حملوں سے تعلق کے الزام میں مطلوب تھے۔ ان حملوں میں 160 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
انڈیا کی انسداد دپشت گردی ایجنسی این آئی اے نے کہا ہے کہ ’کئی برس کی مسلسل اور مشترکہ کاوشوں کے بعد (ممبئی حملوں) کے بنیادی منصوبہ ساز کو قانون کے کٹہرے میں لانے میں نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کامیاب ہو گئی ہے اور جمعرات کو ملزم کی حوالگی (اور انڈیا منتقلی) کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔‘
امریکہ کی سپریم کورٹ کی جانب سے ملزم کی حوالگی کے خلاف دائر پٹیشنز مسترد ہونے کے بعد انڈین سکیورٹی ایجینسیز تہور حسین رانا کو اپنے ساتھ لے آئی ہیں۔
انڈیا کے وزیر داخلہ امیت شاہ نے بدھ کو کہا تھا کہ ’تہور رانا کی حوالگی وزیراعظم نریندر مودی کی سفارت کاری کی ’عظیم فتح‘ ہے۔
انہوں نے ایکس پر لکھا کہ ’یہ انڈین حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان تمام افراد کو واپس لائیں جنہوں نے وطن اور انڈین عوام کو نقصان پہنچایا۔‘

انڈیا نے الزام عائد کیا تھا کہ ملزم تہور رانا پاکستان میں قائم لشکر طیبہ گروپ کے رکن ہیں۔ اس تنظیم کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں اعلان کیا تھا کہ واشنگٹن تہور رانا کو انڈیا کے حوالے کرے گا۔ انہوں نے ملزم کو ’دنیا کے انتہائی برے لوگوں میں سے ایک‘ پکارا تھا۔
امریکی سپریم کورٹ نے رواں ماہ ملزم کی امریکہ میں رکھے جانے کی درخواست کو مسترد کر دیا تھا۔ ملزم امریکہ میں ایک حملے کی منصوبہ بندی میں اپنے کردار کے لیے سزا کاٹ رہا ہے۔
انڈیا نومبر 2008 میں کیے گئے ممبئی حملوں کے لیے لشکر طیبہ کو ذمہ دار قرار دیتا آیا ہے، جب 10 بندوق برداروں نے ملک کے مالیاتی دارالحکومت میں قتل عام کیا تھا۔
انڈیا نے تہور رانا پر اپنے دیرینہ دوست ڈیوڈ کولمین ہیڈلی کی مدد کرنے کا الزام لگایا، جسے 2013 میں ایک امریکی عدالت نے لشکر طیبہ کے عسکریت پسندوں کی مدد کرنے کا جرم قبول کرنے پر 35 سال قید کی سزا سنائی تھی۔
پاکستان کی فوج میں خدمات انجام دینے والے سابق فوجی ڈاکٹر تہور رانا 1997 میں کینیڈا ہجرت کر گئے تھے۔ انہوں نے امریکہ کے شہر شکاگو میں ایک قانونی فرم اور ایک مذبح خانہ سمیت متعدد کاروبار قائم کیے۔
تہور حسین رانا کو امریکی پولیس نے سنہ 2009 میں گرفتار کیا تھا۔
انڈیا نے سنہ 2020 میں باقاعدہ طور پر امریکہ سے تہور حسین رانا کی حوالگی کا مطالبہ کیا تھا۔