سنہ 2003 سے قبل صرف موبائل کارڈ ہی دستیاب ہوتے تھے اور اس وقت چھوٹے سے چھوٹا کارڈ بھی تین سو کا ہوتا تھا۔ فوٹو اے ایف پی
پاکستان میں موبائل صارفین کو اب سو روپے کا کارڈ لوڈ کرنے پر 76.94 روپے کے بجائے 88.09 روپے کا بیلنس ملے گا اور ایک کارڈ پر 11.95 روپے کی بچت ہو گی۔
یہ فارمولا ایزی لوڈ اور سو سے زیادہ کے کارڈ استعمال کرنے یا لوڈ کروانے پربھی لاگو ہو گیا۔
سپریم کورٹ نے موبائل کمپنیز کو صارفین سے اضافی ٹیکس وصول کرنے سے روک دیا ہے جس پر کمپنیز نے آپریشنل اور سروسز فیس کی وصولی روک دی ہے، موبائل صارفین کی جانب سے اقدام کو سراہا گیا ہے تاہم مزید ریلیف کا مطالبہ بھی سامنے آیا ہے۔
اس اقدام کا فائدہ صرف پری پیڈ صارفین کو ہو گا جبکہ پوسٹ پیڈ صارفین کا بلنگ سسٹم پرانے طریقہ کار کے مطابق ہی چلے گا۔ اس حوالے سے پی ٹی اے کے ترجمان خرم مہران نے ’اردو نیوز‘ کو بتایا کہ چونکہ سروس چارجز اور ودہولڈنگ ٹیکس صرف پری پیڈ کنکشنز پر لاگو تھے اس لیے پوسٹ پیڈ صارفین اس کا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے کیونکہ پوسٹ پیڈ کنکشنز پر متذکرہ ٹیکس لاگو نہیں تھے۔
اے ایم پی ایس (اینالوگ موبائل فون سسٹم)
سنہ 1980 کے اواخر میں پاکستان میں کئی لوگوں کے ہاتھ میں ایسے فون نظر آنا شروع ہوا جو پہلے صرف انگریزی فلموں میں نظر آتے تھے۔ یہ کارڈ لیس فون کی ہی ایک جدید قسم تھی۔ تاہم یہ کارڈلیس سے اس لحاظ سے مختلف تھا کہ وہ کسی لینڈ لائن نمبر سے منسلک ہوتا تھا اور اس کے کام کی رینج بھی بہت کم ہوتی تھی۔
تاہم اس وقت سامنے آنے والے سیلولر، سیل یا موبائل فون اے ایم پی ایس نیٹ ورک کے تحت کام کرتے تھے جو کسی لینڈ لائن نمبر سے منسلک ہونے کے بجائے الگ سے نمبر رکھتے تھے۔ ان کے ذریعے چلنے والی سروس کا اپنا کوڈ ہوتا ہے اس وقت سروس صرف پوسٹ پیڈ تھی۔ شروع میں ان کی کوریج چند بڑے شہروں تک تھی جو بعدازاں پھیلتی چلی گئی۔ نوے کی دہائی کے وسط تک اے ایم پی ایس سیٹ ہی چلتے رہے۔
جی ایس ایم (گلوبل سسٹم فار موبائل)
اس کے کچھ عرصہ بعد پاکستان میں جی ایس ایم ٹیکنالوجی آئی، جو دنیا میں کافی پہلے متعارف ہو چکی تھی۔ پاکستان میں اس کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔
اس میں پہلی بار سم (چِپ) استعمال کی گئی، ایسے سیٹ بازار میں دستیاب ہوئے جن میں سم فٹ کرنے پر فون کام شروع کر دیتا تھا اور یہ اے ایم پی ایس کی بہ نسبت زیادہ مفید سمجھا گیا کیونکہ اس میں پوسٹ پیڈ کے ساتھ ساتھ پری پیڈ کی سہولت بھی دی گئی تھی۔
چند ہی سال کے اندر یکے بعد دیگرے کئی کمپنیاں میدان میں آئیں اور موبائل فون، فون سے بڑھ کر دوسری سروسز بھی فراہم کرنے لگے۔ جن میں انٹرنیٹ سروسز بھی شامل ہیں، اور اب تو موبائل فون باقاعدہ کمپیوٹر کے برابر کام کرتا ہے۔
دنیا بھر کی طرح پاکستانیوں کو بھی موبائل فون کا ’عادی‘ بننے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ اگرچہ اس دوران مختلف کمپنیوں نے مختلف قسم کی پیکیجز متعارف کروائے جس سے عوام کو فائدہ بھی ہوا لیکن ساتھ ساتھ اس کا خرچہ بھی بڑھتا چلا گیا۔
ایزی لوڈ سروس
سنہ 2003 سے قبل صرف موبائل کارڈ ہی دستیاب ہوتے تھے اور اس وقت چھوٹے سے چھوٹا کارڈ بھی تین سو کا ہوتا تھا اس وقت سو کے کارڈ پرتقریباً 20 روپے کا ٹیکس کٹتا تھا جو خاموشی کے ساتھ بڑھتا رہا، ایزی لوڈ کا فائدہ یہ تھا کہ یہ سو روپے سے کم بھی کروایا جا سکتا تھا جب کہ اس کے ذریعے یوٹیلٹی بل بھی جمع کروائے جا سکتے تھے اس دوران بھی چپکے سے ٹیکس بڑھتا رہا اور بات وہاں تک پہنچ گئی کہ سو روپے کے کارڈ پر 40 روپے تک کٹوتی ہونے لگی، یہ سلسلہ چند سال پیشتر چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور تک چلتا رہا۔
چیف جسٹس کا سوموٹو
مئی 2018 میں چیف جسٹس ثاقب نثار نے اس حوالے سے آنے والی شکایات پر سوموٹو نوٹس لیتے ہوئے کمپنیوں کو سو کے عوض سو کا ری چارج دینے کا پابند کیا کچھ عرصہ کیس چلا اور پھر سو کے کارڈ پر سو کا ہی ری چارج ملنے لگا تاہم یہ سہولت بمشکل ایک سال ہی چل سکی اور ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد کمپنیوں نے پھر سے ٹیکس وصولی کے لیے عدالت سے رجوع کر لیا۔
ٹیکس کی بحالی
پھر سے ٹیکس عائد کیے جانے کے حوالے سے سماعتوں کی خبریں سامنے آنے کے ساتھ یہ خدشہ ظاہر کیا جانے لگا کہ ٹیکس پھر سے لگایا جا سکتا ہے اور ایسا ہی ہوا، نومبر 2018 کے اواخر میں یہ خبر سامنے آئی کہ ٹیکس بحال ہو گیا ہے اور پھر سے سو روپے پر تقریباً 25 روپے کی کٹوتی ہونا شروع ہوئی۔
اس کے بعد موبائل کمپنیوں نے پچھلی کسرکچھ یوں نکالی کہ ایک تو ٹیکس بحالی پر پیسے کٹنے لگے اور دوسرا کمپنیز نے پیکجز کے ریٹ بڑھا دیے جس سے صارفین کو دوہرا نقصان ہوا۔ یہ سلسلہ کچھ ماہ تک چلا اب یہ اطلاع سامنے آئی ہے کہ سپریم کورٹ نے موبائل کمپنیوں کو اضافی ٹیکس وصولی سے روک دیا ہے جس کے بعد موبائل کارڈز پر آپریشنل اور سروسز فیس ختم کر دی گئی ہے اور صارفین کو سو روپے پر 11.95
روپے کا ریلیف ملے گا۔
پاکستان میں موبائل صارفین کی تعداد
پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے مطابق مئی 2019 تک ملک میں موبائل فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد سولہ کروڑدس لاکھ تھی جو ملکی آبادی کا تقریباً ستتر فیصد بنتا ہے۔ تھری جی فور جی صارفین کی تعداد چھ کروڑ اسّی لاکھ تھی جو آبادی کا تقریباً ساڑھے بتیس فیصد تھا بنیادی یعنی لینڈ لائن ٹیلی فون استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد تقریباً تیس لاکھ تک ہے جبکہ سات کروڑ صارفین براڈبینڈ سبسکرائبرز ہیں جو آبادی کا تقریباً ساڑھے تینتیس فیصد ہے۔ خیال یہی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس کے بعد گزرنے والے ڈیڑھ ماہ کے دوران بھی صارفین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔