مہدی حسن نے ہندوستانی ریاست راجستھان کے ایک گاﺅں لونا میں18جولائی 1927کو آنکھ کھولی۔
ان کی پرورش فن پرور ماحول میں ہوئی۔ والد، استاد عظیم خان اور چچا استاد اسماعیل خان دھرپد گائیکی میں دست گاہ رکھتے تھے۔ دونوں بھائی جے پور کے دربار سے منسلک تھے۔
سات برس کی عمر میں کلاسیکی موسیقی نے مہدی حسن کے دامن دل کو اپنی طرف کھینچا اور وہ مشکل راگوں میں گانے کی مشق کرنے لگے۔ والد کو نورِ نظر کی ریاضت خوش آتی لیکن ماں اس کی محنت شاقہ سے پریشان ہوتیں، ایک دن زچ ہوکر انھوں نے بیٹے کا تانپورہ چھپا دیا، اس پر شوہر اس نیک بی بی پر برہم ہوئے اور کہا کہ بیٹا صحیح راہ لگا ہے، اسے تنگ مت کرو، اس کے بعد مہدی حسن کی والدہ نے انھیں ٹوکا نہیں۔
والد کا زور فن موسیقی کے رموز سکھانے پر ہی نہ تھا، وہ بیٹے سے کسرت بھی بہت کراتے کہ ان کا خیال تھا، گلوکار بننے کے لیے صحت مند ہونا ازحد ضروری ہے، ایک دفعہ تو کسی نے انھیں یہ کہہ کر چھیڑا
’ بیٹے کو گویا بنا رہے ہو یا پہلوان؟‘
گیارہ برس کی عمر میں مہاراجہ آف بروڈا کے سامنے گایا تو انھوں نے بہت تعریف کی، جس سے بہت حوصلہ افزائی ہوئی اور بقول مہدی حسن ، یہی وہ لمحہ تھا جب انھوں نے فن گائیکی کو کرئیر بنانے کا فیصلہ کیا۔
مہدی حسن کے بھائی غلام قادر لکھنو میں موسیقی کی تعلیم کے معروف ادارے سے گریجویٹ تھے۔ راگوں سے گہری واقفیت رکھتے تھے۔ گلوکاری کے سفر میں انھوں نے چھوٹے بھائی کی بھرپور اعانت کی۔
سنہ 1947میں مہدی حسن کے خاندان نے پاکستان ہجرت کی تو نئی سرزمین پر نامساعد حالات کا سامنا کرناپڑا۔ روزی روٹی کے لیے مستقبل کے اس عظیم فنکار کو سائیکلوں کی مرمت والی دکان پر مزدوری کرنی پڑی۔ موٹر ورکشاپ میں مکینک بنے۔
سارے جھمیلوں اور تکلیفوں کے باوجود موسیقی کے شوق کی لو مدھم نہ ہونے دی، مسلسل ریاض کرتے رہے، جانتے تھے کہ ایک روز مقدر کا ستارہ ضرور چمکے گا۔ زمانہ ان کے قدم لے گا۔
پچاس کی دھائی کے آغاز میں آڈیشن کے ذریعے ریڈیو پاکستان کراچی کے دروازے ان پر کھل گئے اور وہ آواز کا جاد و جگانے لگے۔ سنہ 1956 میں فلموں میں پہلا بریک اس وقت ملا جب فلم ” شکار “ کے لیے گیت ” میرے خواب و خیال کی دنیا لیے ہوئے “ گایا جو زیادہ مشہور تو نہ ہوسکا لیکن اس نے ان کے اعتماد میں اضافہ ضرور کیا۔
فلموں میں شہرت کا اصل آغاز معروف ڈائریکٹر ریاض شاہد کی فلم ” سسرال “ میں منیر نیازی کے اس گیت سے ہوا:
جس نے مرے دل کو درد دیا
اس شکل کو میں نے بھلایا نہیں
مہدی حسن نے پلے بیک سنگر کے طور پر بڑا نام کمایا۔ طویل عرصہ فلمی دنیا میں راج کیا۔ فلمسازوں کی ضرورت بن گئے۔ مسلسل چھ برس بہترین پلے بیک سنگر کا نگار ایوارڈ حاصل کیا۔
ممتاز محقق عقیل عباس جعفری کے ” پاکستان کرونیکل“ کے مطابق مہدی حسن نے 477 فلموں کے لیے گایا،گیتوں کی تعداد 667 ہے، سو سے زائد فلمی گیت اداکار محمد علی پر فلمائے گئے۔
پلے بیک سنگر کی حیثیت سے مہدی حسن کی کامیابیاں اپنی جگہ اہم ہیں لیکن ان کی حقیقی پہچان غزل گائیکی بنی اوروہ شہنشاہ ِغزل کہلائے ۔ دنیا میں ان کے نام کا ڈنکا بجا۔
غزل گائیک کے طور پر ان میں چھپے جوہر کو سب سے پہلے ریڈیو پاکستان کے افسر اور موسیقی کے پارکھ سلیم گیلانی نے پہچانا۔ ریشماں کی دریافت کا سہرا بھی انھی کے سر ہے۔ سلیم گیلانی نے مہدی حسن کو سنا تو بہت متاثر ہوئے اور انھیں غزل گانے کی طرف مائل کیا۔
فیض احمد فیض کی غزل ” گلوں میں رنگ بھرے بادِ نو بہار چلے“سے ان کی شہرت کو پر لگ گئے۔ ریاض شاہد کی بلاک بسٹر فلم ” فرنگی “ میں بھی یہ غزل چلی۔
غزل کی اس قدر مشہوری ہوئی کہ ایک دفعہ فیض احمد فیض سے کہا گیا کہ وہ ذرا مہدی حسن والی غزل تو سنادیں۔ یہ بھی روایت ہے کہ فیض نے ایک بار کہا کہ بھئی وہ غزل تو مہدی حسن کی ہوگئی ہے۔
غزل کی صنف کی برکت سے ایک تو بطور گلوکار ان کی شہرت چاردانگ عالم میں پھیلی تو دوسری طرف بڑے بڑے شاعروں سے ان کا تعلق استوار ہوگیا ، جس کا انھیں بہت فائدہ ہوا اور زبان و بیان کے سلسلے میں انھیں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔
مہدی حسن نے غزل گائیکی کو وقار عطا کیا۔ اپنا چراغ ایسے زمانے میں جلایا جب بڑے بڑے گلوکار میدان میں موجود تھے۔ مہدی حسن نے اپنے زمانے کے شاعروں کی غزلوں کو ہی گا کرامر نہیں کیا بلکہ کلاسیک شاعروں سے بھی اعتنا کیا۔ میر تقی میر کی غزل
دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتا ہے
یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے
مہدی حسن کو ذاتی طور پر سب سے زیادہ پسند تھی۔
اس غزل کے بارے میں ملکہ ترنم نور جہاں کی رائے بھی ریکارڈ پر موجود ہے۔
ان کے مطابق ،’ میں ایک پارٹی سے اپنے شوہر کے ساتھ واپس گھر جارہی تھی کہ راستے میں پان کی دکان پر ہم تھوڑی دیر کے لیے رکے تو ریڈیو پر ایک اجنبی آواز میں یہ غزل ” یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتا ہے “ چل رہی تھی۔ سر اتنے کامل تھے کہ میں مبہوت ہوکر رہ گئی۔جب تک غزل ختم نہ ہوگئی ہم اپنی جگہ سے ہلے نہیں۔یہ پہلی دفعہ تھا کہ میں نے مہدی حسن کی آواز سنی۔‘
اس واقعہ کے برسوں بعد جب موسیقی کے افق پر مہدی حسن مہ کامل بن کر چمک رہے تھے تو نور جہاں نے کہا :
’میں نے تان سین کا صرف نام سنا تھا، انھیں دیکھا مہدی حسن کے روپ میں ہے“
لتا منگیشکر نے مہدی حسن کو یہ کہہ کر خراج تحسین پیش کیا :
ان کے گلے میں بھگوان بولتا ہے۔
دونوں عظیم فنکاروں میں باہمی احترام کا رشتہ اس قدر پائیدار تھا کہ ایک دفعہ دونوں کنیڈامیں تھے۔ رہائش الگ الگ جگہ پر تھی۔ دونوں ایک دوسرے سے ملنے کے متمنی۔ لتا کا اصرار تھا کہ احترام کا تقاضا ہے کہ وہ چل کر مہدی حسن کے پاس جائیں۔ ادھر مہدی حسن مصر کہ نہیں ، مناسب یہی ہے کہ وہ چل کر لتا کے حضور پیش ہوں ۔ بیچ کا رستہ یہ نکلا کہ دونوں کی ملاقات نیوٹرل مقام پر ہوئی۔
مزید پڑھیں
-
’ٹٹ پینے منور ظریف نے بڑا ای ہسایا‘Node ID: 417401
-
لوک گلوکار عالم لوہار: ’واجاں ماریاں بلایا کئی وار‘Node ID: 424421