جنگیں کتنی بدصورت ہوتی ہیں اس کا اندازہ وہی لوگ لگا سکتے ہیں جنہوں نے جنگوں کو جھیلا ہے، اگر جنگیں تباہی پھیلانے کا سامان نہ لاتیں تو ہندوستان کا جنگجو اشوکا کبھی اپنی تلوار کو پھینک کر بدھ مت کی تبلیغ نہ کرتا۔ لیکن انسانی تاریخ کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ (انسان) جنگوں میں جیتا اور مرتا رہتا ہے۔
مگر یہ منظر آنکھوں کو کیسا لگتا ہوگا کہ آج سے 176 برس قبل جہاں کسی میدان جنگ میں بارود کی بو رہی ہو اور اب وہاں پھول کھلتے ہوں یا ہرے بھرے کھیت لہلہاتے ہوں تو من کو ایک سکون سا ملنے لگتا ہے۔ سندھ میں دو ایسے ہی میدان جنگ موجود ہیں جن کی شکل و صورت آج بالکل بدل چکی ہے۔ یہ میدان جنگ حیدرآباد سے تقریبا آدھے گھنٹے کے سفر پر ہیں، جوکہ ایک دوسرے کے بہت قریب بھی ہیں۔
مگر وہاں پہنچ کر جنگ کا منظر اور تالپوروں کی شکست کی کہانی تازہ ہو جاتی ہے کیوں کہ آج بھی وہاں انگریز سپاہیوں کی یادگاریں بنی ہوئی ہیں۔ یہاں اس زمانے میں دو جنگیں لڑی گئی تھیں، جن میں سے پہلی میانی کی جنگ تھی جبکہ دوسری دوآبے والی جسے عام طور پہ دوبے والی جنگ کہا جاتا ہے۔
کلہوڑا خاندان سے جیسے ہی سندھ کا اقتدار تالپور خاندان کے حصے میں آیا، اس وقت تک ہندوستان میں انگریزوں نے اپنی ہلچل شروع کر دی تھی، لہٰذا اس تمام تر صورتحال میں سندھ کا انگریزوں سے بچنا ممکن نہیں تھا۔ میانی کے میدان میں جنگ 17 فروری 1843 کو لڑی گئی، جبکہ باقی سندھ پر قابض ہونے کے لیے دوسری جنگ 24 مارچ 1843 میں لڑی گئی جسے دوبے والی جنگ کہا جاتا ہے، جس میں ہوش محمد شیدی( ہوشو شیدی) نے اپنی جان کی قربانی دی۔
اس تمام تر جنگی منظرنامے میں جو سب سے اہم ترین کردار ہمیں نظر آتا ہے وہ برطانوی عملدار چارلس نیپئر ہے۔ چارلس نیپئر 1841 میں فوجی سربراہ مقرر ہوئے، اگست 1842 میں انہیں سندھ کا بااختیار سیاسی اور فوجی سربراہ مقرر کیا گیا۔ چارلس نیپئر 1842 کو ہی ممبئی سے کراچی کے لیے روانہ ہوئے۔ اسی دوران سمندری سفر میں کالرا کی وبا پھیل گئی، جس میں 54 لوگ مر گئے مگر چارلس نیپئر بچ گئے۔
تالپوروں کو کلہوڑا خاندان سے اقتدار تو مل گیا تھا، مگر اس اقتدار کو سنبھالنا اصل معاملہ تھا، کیونکہ اسی زمانے میں انگریزوں نے بڑی چالاکی سے تالپور حکمرانوں سے چند معاہدے کیے تھے، جن کی پاسداری خود انگریزوں نے نہیں کی۔ جبکہ انگریز سندھ میں پہلی تجارتی کوٹھی 1635 میں ٹھٹہ میں کھول چکے تھے۔ یہ سلسلہ 1662 تک چلتا رہا۔ اس کے بعد یہ کوٹھی بند ہو گئی۔
تالپور دور میں 21 اگست 1809 کو انگریز سرکار اور تالپور حکمرانوں کے مابین ایک معاہدہ ہوا، جس میں غلام علی، میر کرم علی اور میر مراد علی شامل تھے، اس میں یہ بیان کیا گیا تھا:
-
دونوں حکومتوں میں کبھی بھی دشمنی نہیں ہوگی۔
-
دونوں حکومتوں کے ہاں وکیل مقرر ہوں گے۔
-
سندھ حکومت فرانس کے لوگوں کو اپنے ہاں آباد نہیں ہونے دے گی۔
دوسری جانب خیرپور کے تالپور حکمرانوں سے بھی معاہدے ہوئے تھے۔
یہ معاہدہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے ہینری پاٹنجر اور میر رستم خان تالپور کے مابین 4 اپریل 1832 میں طے پایا جبکہ 19 جون 1832 کو گورنر جنرل لارڈ بیٹنگ نے اس کی منظوری دی، جس کے مطابق:
-
دونوں حکومتوں کے آنے والے حکمران ایک دوسرے کے اقتدار میں ٹانگ نہیں اڑائیں گے۔
-
انگریز سرکار خیرپور حکومت سے یہ امید رکھتی ہے کہ وہ بھی حیدرآباد حکومت کی طرح ہندوستان کے سوداگروں کو دریائے سندھ اور دیگر خشکی کے راستوں سے ان کی شرائط پہ گزرنے کی اجازت دے گی۔
-
خیرپور حکومت اس پہ راضی ہے کہ طے شدہ تحریر فہرست کے مطابق جو چیزیں سندھ لائی جائیں گی، ان پہ انصاف سے محصول حاصل کیا جائے گا اور تاجروں کو کسی بھی طریقے سے پریشان نہیں کیا جائے گا۔