سوشل میڈیا پر آئے روز جہاں منفرد ٹویٹس اور ٹرینڈز صارفین کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں وہیں سیاسی پارٹیوں کے اکاؤنٹس سے کی جانے والی ٹویٹس کبھی کبھی ساست دانوں کو مہنگی بھی پڑ جاتی ہیں۔
ایسا ہی کچھ مسلم لیگ ن کی نائب صدرمریم نواز کے ساتھ ہوا جب جمعے کو انہوں نے اپنے اکاونٹ سے ایک ٹویٹ کی جس میں انہوں انگریزی اخبار ایکسپریس ٹربیون میں شائع ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ کو شئیر کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ہے نا اہلوں کی اصل کارکردگی‘، لیکن شاید ان کا ٹوئٹر ہینڈل استعمال کرنے والوں کو یہ علم نہیں تھا کہ ورلڈ بینک کی رپورٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کا کچھ دور بھی شامل ہے، لیکن اس رپورٹ میں خصوصی طور پر مالی سال 2015 سے 2018 تک کا احاطہ کیا گیا ہے جس میں نون لیگ برسر اقتدار تھی۔
غلطی کا احساس ہونے کے بعد مریم نواز کے ٹوئٹر ہینڈل سے اس ٹویٹ کو ہٹا دیا گیا۔
اس رپورٹ کے ردعمل میں سوشل میڈیا صارفین نے ان کی ٹرولنگ شروع کر دی کیونکہ ورلڈ کی اس رپورٹ میں ایک طرف جہاں موجودہ حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے آئندہ مالی سال کے بجٹ پر تنقید کی گئی ہے وہیں ن لیگ کے آخری تین سالہ دور حکومت کے دوران پاکستان کی معاشی کارکردگی کا بھی تینقدی جائزہ لیا گیا تھا۔
خیال رہے کہ ورلڈ بینک نے اپنی رپورٹ میں موجودہ پبلک فنانس مینجمنٹ سسٹم اور 2015 سے تاحال پیش کیے گئے وفاقی بجٹس کا احاطہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان میں اکتیس اقتصادی اشاریے زوال پذیر ہیں۔
اس حوالے سے خبر شیئر کرنے پر سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے جہاں کچھ لوگوں نے مریم نواز کی تائید کی وہیں کئی ایک نے انہیں سخت تنقید کا بھی نشانہ بنایا۔
ٹوئٹر صارف نظر حسین کا کہنا تھا کہ غلطی اخبار والوں کی ہے انہوں نے آخری بات پہلے کیوں نہیں بتائی ۔
جہاں لوگوں نے ان کی اس غلطی پر انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا وہیں ان کے سپورٹرز نے ان کا ساتھ بھی دیا۔ عبدالستار نامی ٹویٹر صارف کا کہنا تھا کہ ’میم ہمیں کسی کو کارکردگی نہیں دیکھنی بلکہ یہ بتائیں کہ آپ دھرنے کی کال کب دے رہی ہیں اور بے گناہ نواز شریف سے اے سی کب واپس لے رہے ہیں؟‘
ملیحہ ہاشمی کا کہنا تھا کہ ’انگریزی زبان ایک بار پھر آپ کی دشمن نکلی، ورلڈ بینک کی یہ رپورٹ 2015 سے لے کر 2018 تک کی ہے اگر یقین نہیں آتا تو کسی سے ترجمہ کروالیں۔‘
ندیم نے لکھا کہ ’اب مجھے سمجھ آئی کہ ان محترمہ کو کلیبری کوئن کیوں کہا جا تا ہے یہ پڑھی لکھی نہیں بلکہ لکھی پڑھی ہیں جو انہیں لکھ دے یہ پڑھ لیتی ہیں۔‘
عابد مغل کا کہنا تھا کہ ’نقل کے لیے عقل کی ضرورت ہوتی جو ان لوگوں میں نہیں ہیں ۔اپنی حکومت کو ہی بے نقاب کر دیا۔‘
نبیل چوہدری کا کہنا تھا کہ ’یہ خاتون خود اپنی پارٹی کو ڈبو چکی ہیں۔‘