امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات میں پیش رفت پر اطمینان ظاہر کیا ہے تاہم خبردار کیا ہے کہ ان کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ افغانستان کے ایک بڑے حصے کو صفحہ ہستی سے مٹا دیں جس میں لاکھوں افراد مارے جائیں گے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم نے بہت پیش رفت کی ہے۔ ہم بات چیت کر رہے ہیں۔‘
صدر ٹرمپ نے کہا کہ افغانستان میں امریکی افواج دو دہائیوں سے پھنسی ہوئی ہیں۔ ’چاہیں تو افغانستان میں جنگ دو، تین یا چار دنوں میں جیت سکتے ہیں لیکن میں ایک کروڑ لوگوں کو مارنا نہیں چاہتا۔‘
صدر ٹرمپ نے اسی طرح کی بات گذشتہ ماہ جولائی میں پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے دورہ امریکہ کے دوران میڈیا کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بھی کی تھی۔ تاہم اس بار امریکی صدر نے صراحت کے ساتھ کہا ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کی بات نہیں کر رہے۔ صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں روایتی جنگ کی بات کر رہا ہوں۔‘

صدر ٹرمپ سے واشنگٹن پوسٹ کی ایک رپورٹ کے حوالے سے سوال کیا گیا جس کا انہوں نے واضح جواب نہ دیا۔
واشنگٹن پوسٹ کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ طالبان کے ساتھ معاہدے کے تحت امریکہ افغانستان میں اپنی موجودہ فوج کی تعداد چودہ ہزار سے کم کر کے آٹھ ہزار کرے گا جس کے جواب میں طالبان جنگ بندی کرتے ہوئے افغان حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں شامل ہوں گے۔
اس سے قبل صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کو دہشت گردوں کی لیبارٹری قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ امریکی افواج کا انخلا چاہتے ہیں تاہم وہاں ایک مضبوط انٹیلیجنس چھوڑیں گے۔

افغان عمل کے لیے امریکہ کے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد نے افغان امن مذاکرات کے سلسلے میں جمعے کو وزیراعظم، وزیر خارجہ اور پاکستانی فوج کے سربراہ سے ملاقات بھی کی۔
ملاقات کے دوران وزیراعظم عمران خان نے کہا کہ افغانستان میں امن اور استحکام کا لائحہ عمل مرتب کرنے کے لیے ضروری ہے کہ طالبان اور افغان حکومت کے مابین مذاکرات ہوں۔
زلمے خلیل زاد نے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کے دوران حالیہ دورہ کابل، اور دوحہ میں ہونے والے امریکہ، طالبان امن مذاکرات کے ساتویں دور کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا۔
زلمے خلیل زاد نے دورہ پاکستان کے اختتام پر ٹویٹ میں کہا کہ امن قائم کرنے کے لیے افغانستان اور پاکستان نے یقین دہانی کروانی ہوگی کہ دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کو دھمکانے کے لیے استعمال نہ ہو۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی جانب سے یقین دہانی اور افغان حکومت اور طالبان کے درمیان امن معاہدے سے علاقائی معاشی شراکت داری، روابط اور ترقی ممکن ہو سکے گی۔
Peace will require reliable assurances from #Afghanistan & #Pakistan that neither side’s territory is used to threaten the other. Such assurances on top of an intra-Afghan comprehensive peace agreement will allow increased regional economic integration, connectivity & development
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) August 2, 2019
زلمے خلیل زاد پاکستان کا دورہ مکمل کرنے کے بعد طالبان سے مذاکرات کے لیے دوحہ روانہ ہو گئے۔ انہوں نے مذاکرات کے حوالے سے ٹویٹ میں واضح کیا کہ دونوں فریق امن معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، نہ کہ امریکی فوجوں کے انخلا کا معاہدہ۔ بلکہ ایسا امن معاہدہ جس سے انخلا ممکن ہو سکے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ کی افغانستان میں موجودگی شرائط پر مبنی ہے، اور امریکی فوجی انخلا بھی شرائط پر ہی مبنی ہو گا۔ تاہم انہوں نے شرائط کا ذکر نہیں کیا۔
Just got to #Doha to resume talks with the Taliban. We are pursuing a #peace agreement not a withdrawal agreement; a peace agreement that enables withdrawal. Our presence in #Afghanistan is conditions-based, and any withdrawal will be conditions-based.
— U.S. Special Representative Zalmay Khalilzad (@US4AfghanPeace) August 2, 2019