ایل این جی کیس میں اسلام آباد ہائیکورٹ نے سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور سابق ایم ڈی پی ایس او شیخ عمران الحق کی درخواست ضمانت مسترد کر دی جس کے بعد نیب نے دونوں کوقطر ایل این جی کیس میں احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔
مفتاح اسماعیل کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری پر سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔
مفتاح اسماعیل کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ان کا موکل سوئی سدرن گیس کے نان ایگزیکٹو ڈائریکٹر تھے۔ نیب طاقت کا غلط استعمال کر رہا ہے جو انصاف کا قتل ہے۔ اگر پاور کا استعمال مذموم مقاصد کے لیے کیا جائے تو اسے بدنیتی تصور کیا جائے گا۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا مفتاح اسماعیل نے ایل این جی کے معاہدے میں قیمت پر مذاکرات نہیں کیے تھے؟ وکیل نے جواب دیا کہ قیمت طے کرنے کے لیے آٹھ رکنی کمیٹی تھی جس کے ایک رکن مفتاح اسماعیل بھی تھے۔
ایل این جی لینے اور قطر سے معاہدہ کرنے کا فیصلہ مفتاح اسماعیل کے چارج سنبھالنے سے قبل ہوا۔
خیال رہے کہ اسی کیس میں سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی بھی نیب کی تحویل میں ہیں جن پر الزام ہے کہ انہوں نے بطور وزیر قطر کے ساتھ ایل این جی کا معاہدہ کر کے اس کا ٹھیکہ من پسند کمپنی کو دیا تھا جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا۔
وکیل نے عدالت کو مزید کہا ایل این جی ٹرمینل بعد میں قائم ہوا جس کے لیے موجودہ حکومت نے زیادہ قیمت ادا کی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ نے کم اور موجودہ حکومت نے زیادہ نقصان کیا ہے؟
مفتاح اسماعیل کے وکیل حیدر وحید نے اپنے دلائل میں کہا کہ نیب پہلے اسی عدالت میں بیان دے چکا ہے کہ مفتاح اسماعیل کی گرفتاری نہیں چاہیے۔ نیب بتائے تب اور آج میں ایسا کیا نیا ہو گیا ہے؟
محض سیاسی حالات بدلے ہیں جس کی وجہ سے گرفتاری کا فیصلہ کیا گیا کیونکہ مفتاح اسماعیل کی لیڈر نے احتجاج کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
شاہد خاقان گرفتار، مفتاح کے وارنٹ جاریNode ID: 426176