”آبادی کا نصف حصہ کسی صورت بھی ایسے کسی معاہدے سے اتفاق نہیں کرے گا جس میں اس کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے‘
جوں جوں امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ممکنہ امن معاہدہ ہو جانے کا وقت قریب آ رہا ہے افغان خواتین کے تحفظات اور اندیشوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔
افغان خواتین کے یہ تحفظات بیس برس پہلے کے ان واقعات اور حالات پر مبنی ہیں جن میں وہ حالات کے رحم و کرم پر تھیں۔
کابل میں زندگی تو معمول پر ہے، خواتین پر بھی کوئی پابندی نہیں مگر گذشتہ دہائیوں میں اپنے پیاروں کو کھونے، سنگساری، سکول جانے پر پابندی، گھر سے بغیر محرم کے نکلنے کے انجام کا ڈر اور قتل ہونے جیسے واقعات اب بھی ان کے ذہنوں پر نقش ہیں۔
انہی واقعات کی وجہ سے ان خواتین کو اپنے اور بچوں کے مستقبل کی فکر ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ اگر امن معاہدہ ہوتا ہے اور اگر افغان حکومت اور طالبان مذاکرات کے لیے بیٹھتے ہیں تو ان کے حقوق کو تحفظ دیا جائے۔
’اردو نیوز‘ نے اسی سلسلے میں افغانستان کی تین خواتین سے گفتگو کی ہے۔
ان میں سے ایک اسیلہ وردک ہیں جو افغانستان ہائی پیس کونسل کی رکن اور اقوام متحدہ کی افغان مشن کی منسٹر کونسلر ہیں۔
حال ہی میں افغانوں کے مابین مذاکرات کے لیے انہوں نے دیگر افغان رہنماؤں کے ساتھ دوحہ کا دورہ کیا تھا۔
اسیلہ وردک نے افغانستان میں ان دنوں کام کیا جب خواتین افغانستان میں کام کرنے سے کتراتی تھیں۔
وہ دن یاد کرتے ہوئے اسیلہ وردک کہتی ہیں’ بہت مشکل دن تھے، دھمکیاں مجھے بھی مل رہی تھیں اور پھر میں نے اپنے والد کو کھو دیا، جس کا غم آج تک نہیں گیا۔‘
کابل سے اردو نیوز کے ساتھ بات کرتے ہوئے اسیلہ وردک نے کہا کہ مذاکرات امریکہ یا افغان طالبان کے درمیان ہوں یا افغان حکومت کے ساتھ، ہم نہیں چاہیں گے کہ گذشتہ برسوں میں حاصل کیے گئے افغان خواتین کے حقوق ان سے چھینے جائیں۔
تاہم ان کا کہنا ہے ’ ہم جھگڑے کا خاتمہ ہر حالت میں چاہتے ہیں کیونکہ یہ افغانوں کے لیے بہت ساری مصیبتیں لایا ہے۔ ہر روز آپ دیکھتے ہیں کہ افغان عورتیں بیوہ ہورہی ہیں، ان کے بچے مر رہے ہیں۔ ہم جھگڑے کا خاتمہ چاہتے ہیں لیکن افغان خواتین اپنے حقوق سے دستبردار نہیں ہوں گی اور اس کے لیے ہم چاہیں گے کہ ہمارے ہمسائے ہمیں اکیلا نہ چھوڑیں۔‘
طالبان کےساتھ بات چیت کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ہمارے لیے یہ آسان نہیں تھا کہ اپنے دشمن کے ساتھ ایک میز پر بیٹھیں کیونکہ افغانستان میں ایسا کوئی بھی نہیں جنہوں نے اس جھگڑے میں اپنے پیاروں کو نہ کھویا ہو۔
’ہمارے پاس امن کے علاوہ اب کوئی اور راستہ نہیں، میں بار بار کہتی ہوں کہ آئیں اور اس جھگڑے کا خاتمہ کریں، جس کے لیے ہمیں افغانوں کے مابین براہ راست بات چیت کی ضروت ہے۔‘
اسیلہ وردک نے بات جاری کرتے ہوئے کہا جب ہم طالبان سے ملیں تو انہوں نے کہا کہ ’بہت خطرناک خواتین آئی ہیں۔‘ ہم نے کہا ہم خطرناک نہیں ہیں، آئیں اور اس جنگ کا خاتمہ کریں۔‘
ان کے مطابق ’مجھے اس وقت تک ڈر تھا جب تک دوحہ میں طالبان سے ملاقات نہ ہوئی لیکن دوحہ کے دورے کے بعد سے وہ ڈر مجھ میں تھوڑا سا کم ہوا ہے کیونکہ طالبان کے رویے میں تھوڑی سی تبدیلی آئی ہے لیکن جو ڈر ابھی بھی موجود ہے وہ یہ کہ افغانستان میں ان کے جنگجوؤں کے رویوں میں تبدیلی نہیں آئی، ہم نہیں چاہتے کہ اسی رویہ کی وجہ سے افغانستان بیس برس پیچھے چلے جائے۔ کہیں پھر سے جنگیں نہ شروع ہوجائیں۔‘
اسیلہ وردک نہیں سجھتیں کہ معاہدے کے بعد مکمل امن آئے گا بلکہ یہ جزوی ہوگا وہ اس لیے کہ افغانستان میں داعش بھی ایک خطرہ ہے۔
ناجیہ صافی کابل میں ایک غیر ملکی ریڈیو کے لیے کام کرتی ہیں۔ ان کو اس متوقع امن معاہدے اور حکومت میں افغان طالبان کی شمولیت سے متعلق تحفظات ہیں۔
وہ کہتی ہیں ’ان مذاکرات میں بیان کی آزادی پر کسی قسم کی بات چیت نہیں ہوئی میڈیا کے حقوق پر توجہ نہیں دی گئی، اور مجھے اس پر تشویش ہے، میں آنے والے کل سے ڈر رہی ہوں، میں چاہوں گی کہ ان امور پر بات چیت ہو، ہر نئے دن کے ساتھ ہماری تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘
ناجیہ صافی کے مطابق ’ہر نئے دن اس سوچ کے ساتھ دفتر جاتی ہوں کہ معاملات کیسے حل ہوں گے، ہم حکومت اور بین الاقوامی برادری سے خواتین کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت چاہتے ہیں۔‘
کابل میں غیر سرکاری تحقیقاتی ادارے ریسرچ اینڈ ایوالوایشن یونٹ کی ڈائریکٹر اورزلہ نعمت کہتی ہیں، آبادی کا نصف حصہ کسی صورت بھی ایسے کسی معاہدے سے اتفاق نہیں کرے گا جس میں اس کے حقوق کا خیال نہ رکھا جائے۔
اورزلہ کے مطابق’افغان خواتین چاہتی ہیں کہ پورے ملک میں سیز فائر ہواور تشدد کا خاتمہ کیا جائے، ہم افغان حکومت سے بھی چاہتے ہیں کہ سیز فائر کا احترام کیا جائے۔‘
اورزلہ کہتی ہیں کہ افغانستان کی 34 ملین آبادی کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑنا ایک سنگین غلطی ہوگی۔ اگر افغانستان ایک سخت اور قدامت پسند رہنما کے ہاتھوں میں جاتا ہے تو اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے اور افغانستان پھر سے دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن جائے گا، ہم یہ چاہیں گے کہ یہ لوگ اپنی بین الاقوامی ذمہ داریوں سے باخبر ہوں۔‘
اورزلہ نعمت طالبان کے دور میں بھی ایک لیٹریسی نیٹ ورک چلا رہی تھیں، یہ نیٹ ورک اس وقت عورتوں کو گھروں میں تعلیم دیتا تھا۔
اورزلہ پرعزم ہیں کہ افغان خواتین واپس اندھیروں میں نہیں جائیں گی، آج کی افغان عورت مضبوط ہے، اپنے حقوق جانتی ہے، امریکہ افغانستان میں رہتا ہے یا نہیں، طالبان نظام حکومت میں شامل ہوتے ہیں یا نہیں، ہم اپنے حقوق کا دفاع جاری رکھیں گی۔