پاکستان کے صوبہ پنجاب کے درالحکومت لاہور کی انسداد منشیات عدالت میں اس وقت صورت حال حیران کن ہو گئی جب مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر رانا ثنا اللہ کی ضمانت کی درخواست کی سماعت کرنے والے جج مسعود ارشد نے یہ کہتے ہوئے سماعت روک دی کہ ’مجھے واٹس ایپ پر ابھی ہدایت ملی ہے کہ میں کام چھوڑ دوں۔‘
کمرہ عدالت میں موجود مقامی صحافی رانا بلال کے مطابق رانا ثناء اللہ کے مقدمہ کی سماعت جج مسعود ارشد کی عدالت میں آٹھ بج کر چھ منٹ پر شروع ہوئی۔ رانا ثناء اللہ کے وکلا نے ان کی ضمانت کی درخواست پر دلائل دینا شروع کیے۔
یہ دلائل تقریباً ایک گھنٹہ جاری رہے،جب عدالت نے پراسیکیوشن کے وکیل رانا کاشف سلیم سے اپنے دلائل دینے کو کہا تو انہوں نے کمرہ عدالت میں موقف اختیار کیا کہ ’مجھے اس مقدمے سے رات کو ہی منسلک کیا گیا ہے اس لیے مجھے اس کیس کو سمجھنے کے لئے وقت چاہیے۔‘
کمرہ عدالت میں موجود صحافیوں کے مطابق جج مسعود ارشد نے پراسیکیوشن کے وکیل کو ایک گھنٹے کی مہلت دیتے ہوئے کہا کہ وہ فائل دیکھ لیں جس کے بعد سماعت ایک گھنٹے کے لیے ملتوی کر دی گئی۔ دس بجے سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا تو جج مسعود ارشد نے بتایا کہ ان کو کام کرنے سے روک دیا گیا ہے۔
اس دوران رانا ثناء اللہ کے وکلا اور جج کے درمیان مکالمہ بھی ہوا۔ رانا ثناء اللہ کے وکیل راجہ ذوالقرنین نے جج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں معلوم ہے کہ یہ کیا ہو رہا ہے اے این ایف اپنا مقدمہ ثابت نہیں کر سکتا اس لیےحیلے بہانے کیے جا رہے ہیں، ہمیں یہ بھی پتا ہے پچھلے ایک گھنٹے میں کیا ہوا ہو گا۔‘ جس پر جج مسعود ارشد نے کہا کہ ’میں اللہ کی جواب دہ ہوں ہمیشہ اللہ کی رضا کے لیےکام کیا ہے۔ رانا ثناء اللہ یا کسی کا بھی مقدمہ ہو فیصلہ میرٹ پر ہونا تھا۔‘
مزید پڑھیں
-
رانا ثنااللہ جیل میں: ’تسلی سے کی گئی سٹل فوٹو گرافی‘Node ID: 424751