ہم اکثر اپنے خوابوں کو تعبیر دینے میں تاخیر کر دیتے ہیں لیکن 15 سالہ سٹیو نے اپنے خوابوں کو حقیقت کا روپ دینے میں کوئی تاخیر نہیں کی۔ اپنے گھر کے قریب لگے بجلی کے کھمبے پر چڑھ کے اگرچہ انہوں نے اپنی عمر کے لحاظ سے بے وقوفی تو کی لیکن اپنے خوابوں کو پا لینے کے جذبے کا بھی خوب مظاہرہ کیا۔
آج بھی سٹیو اسی جذبے کے ساتھ پہاڑوں کی طرف قدم بڑھاتے ہیں جس طرح سے اس لڑکے نے کئی سال قبل کھمبے کی طرف بڑھائے تھے۔
حال ہی میں سٹیو سوینسن نے اپنے تین دیگر ساتھیوں گراہم زمرمین، کریس رائٹ اور مارک رِکی کے ساتھ تاریخ میں پہلی مرتبہ قراقرم کے پہاڑی سلسلے میں واقع لنک سر نامی پہاڑ کی چوٹی کو سر کیا ہے۔
سات ہزار 41 میٹر کی اونچائی پر، تیز ہواؤں کے بیچ، اپنے پتھریلے جسم پر برف کی چادر اوڑھے لنک سر بارگاہ قراقرم میں شہنشاہوں کی طرح موجود ہے۔ اس چوٹی کی جنگجویانہ خصوصیات کی وجہ سے یہ کوہ پیماؤں کو اپنی قوت برداشت اور سب سے زیادہ شوق کائنات کا مظاہرہ کرنے کا موقع دیتی ہے۔
لنک سر کو سر کرنے کی سٹیو کی یہ تیسری کوشش تھی۔ اس سے قبل انہوں نے 2001 میں بھی کوشش کی تھی لیکن اس کے مشکل راستوں اور ناموافق موسم کی وجہ سے کامیابی حاصل نہ کر سکے۔
سٹیو نے دوبارہ 2017 میں نئے اور خود سے کافی جوان اور تجربہ کار کوہ پیماؤں کے ساتھ لنک سر کو سر کرنے کی کوشش کی اور چھ ہزار میٹر کی بلندی پر پہنچ کر بھی موسم اور کچھ دیگر مسائل کی وجہ سے ان کو واپس لوٹنا پڑا تھا۔
اس سال سٹیو نے اپنی اسی ہم خیال ٹیم کے ساتھ ایک بار پھر لنک سر کا رخ کیا۔ تقریباً ڈھائی ماہ کی مہم کے بعد حال موسم، امیدِ دل اور شوقِ عشق کو زندہ رکھتے ہوئے، ہر لمحمہ اپنے آپ کو حوصلہ دیتے ہوئے سٹیو اور ان کی ٹیم نے 5 اگست 2019 کو شہنشاہ کے محل میں حاضری دے دی اور کبھی نہ تسخیر ہونے والی چوٹی کی بلندیوں کو آخر جا کر چوم لیا۔
سٹیو کا ماننا ہے کہ پہاڑ سر کرنا محض ایک ہدف نہیں بلکہ اس کے دوران کیا گیا ہر عمل انسان کے لیے علم اور تجربے کا باعث ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر بار وہ لنک سر کی طرف ہی لوٹے، بقول ان کے اصل نتیجہ شکست میں نہیں بلکہ آگے بڑھتے رہنے والے قدموں میں ہے۔
’اردو نیوز‘ سے بات کرتے ہوئے سٹیو نے اپنے ایک مشاہدے کا تذکرہ بھی کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اس سوشل میڈیا کے دور میں ہزاروں کی تعداد میں جو کوہ پیما اپنی مہمات پر جاتے ہیں وہ صرف اپنی کامیابی کو دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں صرف اپنے حاصل کیے گئے ہدف کو ہی نمایاں طور پر پیش کرتے ہیں، یہ سب کچھ کر کے نوجوان ایک بہت بڑے سچ کو اپنی تصویروں کے نیچے دفن کر دیتے ہیں اور یہ سچ ہے، دراصل ناکامی کا۔‘
ان کے مطابق ’بہت کوششوں، جنگی قوت، بار بار ہار کے بعد کامیابی حاصل ہوتی ہے اور اکثر کوہ پیماؤں کو دو سے تین کوششوں کے بعد چوٹی سر کرنے کا اعزاز حاصل ہوتا ہے۔ اپنے ہدف کی کامیابی کی تصویروں کے نیچے زندگی جینے کا سبق پہاڑوں کی تیز ہواؤں میں جیسے کھو سا جاتا ہے۔‘
سٹیو کا کہنا ہے کہ آج کل کے ٹو پر جنوب مشرق کی طرف سے چڑھنا اور وہ بھی آکسیجن کے ساتھ، ایک تربیت یافتہ کوہ پیما کے لیے مشکل نہیں کیونکہ اس میں راستہ دریافت کرنے اور رسہ ڈالنے کے لیے دشواری پیش نہیں آتی۔
پہاڑوں کی کٹھن مزاجی کے باوجود 65 سال کی عمر میں سٹیو نے صرف پرخلوص مسکراہٹ اور عاجزی کی نظروں سے قراقرم کی طرف دیکھا اور صرف ایسی چوٹیوں پر چڑھنا چاہا جنہیں اب تک کوئی سر نہیں کر سکا۔ اس میں ان کا ردعمل وہی ہوتا ہے جو ان کا زندگی میں پہلی چوٹی سر کرتے ہوئے تھا۔
درست راستے کا انتخاب کرنا، گہرے شگافوں کو سمجھنا، اپنے تجربے کے مطابق آنے والے پراسرار مسائل اور موسم کا جواں مردی اور ہوش مندی سے استقبال کرنا، یہی وہ کچھ اسباق ہیں جو سٹیو جیسے کوہ پیما نے بار بار اور ہر بار ابھرنے کی قوت سے سیکھے ہیں۔