ہماری زبان کچھ ایسی صاف نہیں۔ خدارا اس سے مراد یہ ہرگز نہیں کہ ہمارا جب جی کرے مغلظات بکنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ابھی بھی کچھ پرانی وضع داری باقی ہے کہ کبھی غصے میں بھی تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹا۔
کبھی مذاق میں بھی گالم گلوچ نہیں کی۔ زبان کی صفائی سے مراد یہ بھی کہ ہمیں کسی بھی زبان پر مکمل عبور حاصل نہیں۔ مادری زبان اردو تھی، پدری زبان سرائیکی، سماجی زبان انگریزی۔۔۔ بس خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔ ابھی بھی مختلف زبانوں میں سوچتے ہیں اور ترجمے کے چکر میں اپنے بال نوچے جاتے ہیں۔
ابھی کی مثال لیجیے۔ کالم لکھنا تھا۔ موضوع کئی دنوں سے ذہن میں سرسوں کے پھول کی طرح تازہ تھا۔ لیکن وہ کیا کیجیے کہ ترجمے نے ہمارا ہی تیل نکال دیا۔ چند ایک زباندان دوستوں سے پوچھا تو وہ بھی ہماری طرح کنفیوژ ہی نکلے۔ پس ثابت ہوا کہ اسے انگریزی میں ہی لکھ دیں گے۔ آفٹر آل، اردو لشکری زبان ہے۔
پڑھنے والے سمجھ جائیں گے۔ کچھ لفظوں کا ترجمہ اس لیے بھی نہیں ہوتا کہ وہ اس زبان میں ہوتے ہی نہیں۔ اس ثقافت سے ہی میل نہیں کھاتے۔ یہ لفظ تھا ’پرائیویسی۔‘
ویسے تو اس کی ہماری زبان میں یوں بھی گنجائش نہیں بنتی کہ ہمارے ہاں پرائیویسی کا کوئی خاص عمل دخل ہی نہیں۔ ہمیں اس بات پر بہت مان ہے کہ ہم ایک دوسرے کا بہت خیال رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاں انفرادی زندگی کا کوئی خاص تصور نہیں۔ چادر اور چار دیواری کا ذکر بھی صرف عورت کی ذات تک محدود ہے کہ وہ گھر کے اندر ہی رہے اور اپنے جسم کو ڈھک کر رکھے۔ اسی گھر میں اگر وہی عورت اپنی پرائیویسی چاہے تو اس پر کئی انگلیاں اٹھ سکتی ہیں۔ ہمارا تو سب کچھ سانجھا ہی ہوتا ہے۔
یہ سانجھ اس حد تک گہری ہے کہ ہر کسی کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسرے کے گھر کے تمام معاملات تک رسائی رکھے۔ پڑوس کی خالہ جان کے لیے بہت اہم ہے کہ برابر والوں کی چھوٹی بہو لڑ کر اپنے میکے سے واپس آئی یا نہیں۔ ان کی جوان لڑکی کل ایک لڑکے ساتھ موٹر سائیکل کے پیچھے بیٹھ کر آئی تھی جو اس نے ایک گلی پہلے ہی رکوا دیا تھا۔ ان کی منجھلی بہو کچھ دنوں سے ناشتے کے وقت اٹھ کر باورچی خانے نہیں آ رہی۔ لگتا ہے کہ اس کا پیر بھاری ہے۔
حاجی صاحب آج کل ہر جمعے کو خضاب لگا رہے ہیں۔ گھر سے باہر بھی خوشبو لگا کر نکلتے ہیں۔ لگتا ہے کہ دو گلی چھوڑ کر رہنے والی جوان بیوہ سے نکاح پڑھوانے کے چکر میں ہیں۔ حاجن بی ان کے گھر سے نکلتے ہی دیو آنند کی فلم دیکھنے بیٹھ جاتی ہیں۔ ان کا چھوٹا بیٹا کل رات کو چھت پر کھڑا سگریٹ پی رہا تھا۔ یقینا ماں باپ سے چوری چھپے کوئی گل کھلانے کو ہے۔
مزید پڑھیں
-
دیکھتے ہیں اس بازی کا سکندر کون ہے؟Node ID: 426341
-
تین بول: طلاق، طلاق، طلاقNode ID: 427906
-
سعدیہ احمد کا کالم: صفائی نصف ایمان ہےNode ID: 431371