سنہ 2015 میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے طالب علم سید ابرار احمد کے بھائی کو کینسر کی تشخیص ہوئی۔
ابرار نے ان کے علاج کے لیے ہسپتالوں کے چکر لگانے شروع کیے تو ہر مرتبہ انہیں کئی تکلیف دہ مراحل سے گزرنا پڑتا۔
علاج تو تکلیف دہ تھا ہی لیکن اس سے پہلے کی کارروائی کی اذیت بھی کم نہیں تھی۔ ہر بار تقریباً ایک گھنٹہ ان کے بھائی کی میڈیکل ہسٹری کی فائل آنے میں لگ جاتا اور اس دوران مریض درد سے بلکتا رہتا۔

کئی بار یہ بھی ہوا کہ جلدی میں ان کو غلط دوا کھلا دی گئی جس سے ان کی طبیعت مزید بگڑ گئی۔
یہی سب سہتے سہتے سنہ 2016 میں ایک دن ان کا انتقال ہوگیا۔
ابرار احمد نے سال بھر ان تکلیفوں سے گزرتے ہوئے یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ اس نظام کو آسان بنانے کے لیے کچھ کریں گے۔
بھائی کی وفات کے چند ماہ بعد ابرار نے اپنے خیالات کو حتمی شکل دینے کے لیے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ مل کر مریضوں کے ریکارڈ تک آسان رسائی کے لیے ایک کمپیوٹرسافٹ ویئر پر کام شروع کر دیا۔
ایک سال کی سخت محنت کے بعد وہ ایک ایسا سسٹم بنانے میں کامیاب ہو گئے جو کسی بھی مریض کا تمام تر ریکارڈ چند سیکنڈ میں مہیا کر دیتا ہے، اس سسٹم کے استعمال سے مریض نہ صرف علاج سے پہلے انتظار کی تکلیف سے نجات حاصل کر سکتے ہیں بلکہ غلط ادویات سے بھی بچ پائیں گے۔
یہ سافٹ ویئر بلاک چین ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر بنایا گیا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی خاصیت یہ ہے کہ یہ کسی ایک مقام تک محدود نہیں بلکہ اس کا فائدہ مختلف جگہوں پر بیک وقت اٹھایا جا سکتا ہے۔
ابرار نے آزاد ہیلتھ سسٹم کے نام سے یہ آئیڈیا نسٹ انکیوبیش سینٹر میں پیش کیا جہاں سے انہیں اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر اور قابلِ عمل بنانے کی تربیت دی گئی۔
اس ٹیکنالوجی کا بنیادی خیال مریضوں کی تمام تر معلومات کو ایک سسٹم میں اکھٹا کرنا ہے تا کہ کوئی مریض دنیا کے کسی بھی کونے میں ہوتو اس کی معلومات اس ہسپتال کے پاس موجود ہوں۔

ابرار احمد نے ’اردونیوز‘ سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس سافٹ ویئر میں مریضوں کی معلومات انتہائی محفوظ طریقے سے جمع کی جاتی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بلاک چین کا لفظ سن کر ذہن میں کریپٹو کرنسی کا نام آتا ہے، لیکن دراصل بلاک چین ایک ٹیکنالوجی ہے جس میں ڈیٹا کو مختلف مقامات پر رکھا جاتا ہے اور یہ کسی ایک فرد یا کمپنی کی ملکیت نہیں ہوتا۔
’کوئی ایک ادارہ اس پر مالکانہ حقوق نہیں رکھ سکتا، یہ ڈیٹا تمام اداروں کی یکساں ملکیت ہوگا جو اس سسٹم میں شامل ہیں۔‘
ابرار احمد کے مطابق امریکہ اور یورپی ممالک بلاک چین سے متعارف ہو رہے ہیں، جبکہ مشرقِ وسطیٰ بالخصوص متحدہ عرب امارات میں تو تمام نظام ہی بلاک چین پر منتقل کیا جا رہا ہے۔
عرب امارات میں بلاک چین کے بڑھتے ہوئے استعمال کے پیش نظر ’آزاد ہیلتھ‘ اب کینیڈا کی ایک کمپنی کے ساتھ مل کر ابوظہبی میں اپنا سسٹم نافذ کرنے والی ہے۔ اگلے مرحلے میں اسے دیگر ممالک تک بھی بڑھا دیا جائے گا۔
مریضوں کی معلومات کے تحفظ کے حوالے سے ابرار احمد نے بتایا کہ ان کا تمام ڈیٹا خفیہ کوڈز کے ذریعے محفوظ کیا جائے گا اور یہ صرف مریض کی بائیو میٹرک تصدیق کے بعد ہی ہسپتال کو دستیاب ہوگا، اور وہ بھی ایک مخصوص وقت تک۔

ابرار احمد نے بتایا کہ اس سسٹم کے نافذ ہونے سے فوراً ہی پتہ چل جائے گا کہ مریض کو پہلے کیا بیماری ہے اور اسے کون سی ادویات پہلے سے دی جا رہی ہیں۔
اس سہولت کی دستیابی کے بعد میڈیکل عملے کی جانب سے غفلت یا کوتاہی کا امکان کم سے کم رہ جاتا ہے۔
لیکن ابرار کے مطابق اس سسٹم کی تمام تر افادیت کے باوجود پاکستان میں مریض فی الحال اس سے مستفید نہیں ہو سکتے کیونکہ کئی دیگر ممالک کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی تاحال بلاک چین ٹیکنالوجی پر پابندی ہے۔
’ہم نے اپنے تئیں بہت کوشش کی کہ کسی طرح یہ سسٹم پاکستان کے ہسپتالوں میں نافذ ہو سکے لیکن حکومت کی طرف سے ہماری کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی۔‘
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ہر سال پانچ لاکھ سے زائد افراد غلط طبی امداد یا بروقت موثر علاج نہ ہونے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔
’اگر ’آزاد ہیلتھ‘ کا سسٹم پاکستان میں بھی متعارف کروا دیا جائے تو اموات کی شرح میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
مصنوعی ذہانت: پاکستان کہاں کھڑا ہے؟Node ID: 430711