کہتے ہیں ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ اسی نظریے کے پیش نظر آج کل نوجوان انجینیئرز اور سائنسدان نئی ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئے ایسی ایجادات کر رہے ہیں جو روز مرہ کی زندگی آسان اور ارد گرد کا ماحول بہتر بنائیں۔
کراچی کی ایک نجی یونیورسٹی میں زیر تعلیم طالبعلم محمد زبیر نے جب اپنے شہر میں ہر طرف پھیلے کچرے کے ڈھیر اور آلودگی اور ان کے سامنے بے بس ہوتی شہری انتظامیہ کو دیکھا تو ان کو خیال آیا کہ کیوں نہ ایک ایسا کوڑا دان بنایا جائے جو بھر جانے پرخود ہی بول اٹھے۔
انہوں نے ایک کچرا دان لیا اور اسے ایک موبائل ایپلیکیشن سے منسلک کر دیا، جس کے بعد اس ڈبے نے کچرے سے بھرجانے کے بعد الرٹ جاری کرنا شروع کر دیا۔
اس الرٹ کی وجہ سے کچرہ دان کو بروقت خالی کرکے اس میں موجود کچرا جلد سے جلد ٹھکانےلگا کر اور فالتو کوڑے کو ارد گرد پھیلنے سے روک کرفضائی آلودگی کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
بی ایس ٹیلی کمیونیکشن کے طالب علم محمد زبیر نے اپنے ’سمارٹ جنک مینجمنٹ سسٹم‘ سے متعلق اردونیوز سے گفتگو میں بتایا کہ اس سے کچرے کا ڈبہ بھرنے سے پہلے ہی اس کے بارے میں پتہ چلایا جا سکتا ہے۔
انہوں نے بتایا ’سڑکوں پر لگے کچرا دان اور ان سے پھیلتی آلودگی کو دیکھتے ہوئے اسے کم کرنے کے لیے یہ سسٹم بنایا ہے۔
سمارٹ سسٹم والے کچرا دان پر لگے لیول بار سےاسے باہر سے ہی چیک کیا جا سکتا ہے کہ اس میں کتنے فیصد کچرا موجود ہے اس کے لیول کے ذریعے موبائل فون پر ایس ایم ایس موصول ہوجاتا ہے۔‘
زبیر کا کہنا ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر کچرا دانوں کو خالی کرنے گاڑیاں آتی ہیں، ہر کچرا دان کو کھول کھول کر دیکھنے کی محنت سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے ان کی یہ سمارٹ ڈیوائس کارآمد ثابت ہوگی جس سے کچرا اٹھانے والی گاڑیوں کا فیول، محنت اور وقت کو بچایا جا سکتا ہے۔
زبیر کا یہ نمونہ صرف یونورسٹی پراجیکٹ تک محدود نہیں بلکہ انھوں نےکراچی کے نجی بحریہ ٹاون پارک میں اس نوعیت کا ایک ڈبہ لگایا ہے ۔ اور وہ کچرے کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے شہری انتظامیہ کی مدد کے لیے بھی تیار ہیں۔
وہ کہتے ہیں ’نجی پارکس سمیت اس سسٹم کو عام سطح پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ شہر کراچی کی انتظامیہ شہر میں جگہ جگہ نصب کچرا دانوں کو سمارٹ جنک سسٹم سے جوڑ کر اس کے اوور فلو ہونے سے قبل ہی تمام کچرا دانوں کو باآسانی اور بروقت خالی کرکے شہر میں صفائی کا انتظام بہتر بناسکتی ہے۔‘
اسی طرح کے ایک اور تجربے میں دونوجوانوں نے ماحول دوست ’گرین انرجی ٹائلز‘ تیار کی ہیں۔
انجینئرنگ کے طالب علم غالب ندیم نے اپنی جماعت کے تین ساتھیوں کےساتھ مل کر ایسے گرین ٹائلز بنائیں ہیں جو انسانی قدموں سے بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں اپنی نوعیت کا یہ پہلا تجربہ ہے جہاں اس منصوبے کی مدد سے عوامی مقامات جیسے پبلک پارکس، شاپنگ سینٹرز اور دیگر مقامات کی راہداری پر اسے نصب کرکے اس کے ذریعے بجلی کا حصول ممکن بنایا جا سکتا ہے۔ نوجوانوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے تجربے سے پاکستان میں بجلی کی کمی کو پورا کیا جا سکتا ہے۔
انجینئرنگ کے طالبعلم غالب احمد نے اردو نیوز کو بتایا ’پاکستان میں بجلی کے مسائل اتنے بڑھ گئے ہیں کہ بیرون ممالک سے بجلی درآمد کرنے کی نوبت آگئی ہے ہم نے دیکھا کہ روس میں ایک ہائی وے بن رہا تھا جو گاڑیوں کے چلنے سے بجلی پیدا کررہا ہے، چین میں اس پر تحقیق جاری ہے۔ اسی سے متاثر ہوکر ہم نے بھی ایسا تجربہ پیش کیا ہے جسے ہم نے ’ای ایف جی‘ کا نام دیا ہےجس کا مطلب ہے ’انرجی فری اینڈ گرین‘۔
ان مصنوعی گھاس سے بنے ٹائلز کے نیچے کوارڈ کرسٹل لگے ہیں جس پر دباؤ پڑنے سے متبادل بجلی بنتی ہے۔ تجربےمیں شامل ان چھ ٹائلز/بلاکس میں سے فی بلاک 15 واٹ جبکہ تمام ٹائلز مل کر ایک وقت میں 95 واٹ بجلی پیدا کرسکتے ہیں۔
انرجی ہارویسٹنگ کے میکانزم میں ان لکڑی و مصنوعی گھاس سے بنے ٹائلز کو ایک فریم میں ایسے جوڑا گیا ہے کہ انسانی قدموں کے دباؤ سے اس سے بجلی پیدا ہوتی ہے اور یوں اس بجلی کو کئی برقی آلات کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔
غالب ندیم کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اس ایجاد کے ذریعے ’کلین اینڈ گرین‘ پاکستان کا مقصد پورا کرسکتے ہیں۔ اس کے ذریعے کسی قسم کی آلودگی نہیں ہوگی اور مفت بجلی پیدا ہوگی۔
جن علاقوں میں لوڈشیڈنگ زیادہ ہے اور جہاں بجلی موجود نہیں وہاں اس کا استعمال انتہائی کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔اس میں کم پیسوں میں سستی بجلی بنائی جاسکتی ہے آلودگی سے پاک ماحول کے ساتھ یہ ایجاد زیادہ سے زیادہ بجلی پیدا کرکے ملکی معیشت میں بھی مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ ہم آج جو بجلی باہر سے خرید رہے ہیں کل اسے فروخت کرسکتے ہیں۔
اس منصوبے میں طلبہ کی رہنمائی کرنےوالے انجینئرنگ کے اسسٹنٹ پروفیسر شیراز موہانی نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا ’پاکستان میں نوکریاں کم ہیں اس لیے پراجیکٹ کے بجائے پراڈکٹس کو آگے لے کر جایا جائے، اسی سوچ کے تحت ان کی یونورسٹی کے طلبا نے اس انرجی ٹائلز کے پراجیکٹ کا تجربہ کیا۔‘
پروفیسر شیراز موہانی کا کہنا ہے ’ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ نوجوان طلبہ کے آئیڈیاز کیا ہیں؟ کسی بھی شعبے میں نوجوانوں میں صلاحیتیں موجود ہیں جسے پالش کرنے کی ضرورت ہے نئےآئیڈیاز پرکام کرنے کے لیے سرمایہ بھی ضروری ہے اگر حکومتی سرپرستی اور تعاون حاصل ہوتو نوجوان صرف انجینئر نگ میں نہیں بلکہ ہر شعبے میں کام کرنے کے لیے تیار ہیں۔‘