دنیا متحد نہ ہوئی تو تیل کے نرخ نا قابل تصور حد تک بڑھ جائیں گے۔ فوٹو الشرق الاوسط
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ 14 ستمبر کو آرامکو کی تیل تنصیبات پر کیے جانے وا لا حملہ جنگی جرم ہے جو ایران کی جانب سے کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اگر دنیا ایران کے خلاف بھر پور جواب نہیں دے گی تو ہمیں مزید اس قسم کے حالات دیکھنے کو ملیں گے جس سے عالمی مفادات پرضرب پڑے گی۔
سبق ویب نیوز کے مطابق سعودی ولی عہدامریکی ٹی وی سی بی ایس کے پروگرام 60 منٹ میں سوالات کے جواب دے رہے تھے ۔
ولی عہد نے اس تفصیلی انٹرویو کے دوران ایران کے علاوہ یمن کی صورت حال، جمال خاشقجی اور سعودی عرب میں خواتین کے ساتھ برتاؤ جیسے اہم موضوعات پر سوالوں کے جواب دیے۔
محمد بن سلمان سے پوچھا گیا کہ یہ حملے سعودی تیل تنصیبات کے مرکز پر کیے گئے۔ اس پر ولی عہد نے کہا کہ میں اس بارے میں آپ سے تھوڑا اختلاف کروں گا۔ ’یہ حملے سعودی تیل تنصیبات پر نہیں بلکہ عالمی توانائی کی رسد پر کیے گئے۔ جس سے تیل کی عالمی رسد کے 5.5 فیصد حصے کو نشانہ بنایا گیا جو نہ صرف امریکہ، چین اور دیگر ممالک کی ضرورت تھی۔‘
آرامکو تنصیبات پر حملے کے حوالے سے سوال پر ولی عہد نے کہا کہ ’میرے خیال میں یہ حماقت ہے۔ ان کے سامنے کوئی سٹریٹیجک ہدف نہیں تھا۔ کوئی احمق ہی ہوگا جو تیل کی عالمی رسد کے5 فیصد حصے کو نشانہ بنائے اور انہوں نے اپنے عمل سے یہ ثابت کردیا کہ وہ احمق ہیں‘۔
انہوں نے مزید کہا کہ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو کے اس بیان سے مکمل اتفاق ہے جس میں انہوں نے آرامکو کی تیل تنصیبات پر حملے کو ایران کی جانب سے ’جنگی کارروائی‘ قرار دیاتھا۔’ ایران نے جو کچھ کیا وہ جنگی کارروائی تھی۔‘
انہو ں نے مزید کہا کہ ایران کے ساتھ جنگ کے بجائے سیاسی حل کو فوقیت دیتے ہیں۔ اگر دنیا ایران کو روکنے کے لیے متحد نہ ہوئی تو تیل کے نرخ نا قابل تصور حد تک بڑھ جائیں گے۔
محمد بن سلمان نے یقین دلایا کہ اگر ایران حوثی ملیشیا کی پشت پناہی بند کردے تویمن کا سیاسی حل بھی دیرپا اور مستحکم ہوگا ۔ ہم یمن میں سیاسی حل کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ اس بات کے بھی خواہاں ہیں کہ یہ عمل کل کے بجائے آج ہو جائے۔
ولی عہدنے سعودی عرب میں حالیہ تبدیلیوں، خواتین اور انسانی حقوق کے بارے میں سوال کے جواب میں کہا کہ بعض لوگ تصویر کو انتہائی چھوٹے زاویے سے دیکھتے ہیں۔ انہیں وسیع کینوس دکھائی نہیں دیتا۔
’میں چاہتاہوں کہ ہر کوئی سعودی عرب آئے اور حقیقت حال کو اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ خواتین اور سعودی شہریوں سے ملاقات کرے اوراس کے بعد اپنی رائے قائم کرے‘۔
اس انٹرویو میں شہزادہ محمد بن سلمان نے گذشتہ سال اکتوبر میں قتل ہونے والے سعودی صحافی جمال خاشقجی کے بارے میں بھی سوا لات کے جواب دیے۔
انھوں نے کہا کیونکہ جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث افراد سرکاری ملازمین تھے لہذا اس حد تک تو وہ اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ تاہم سعودی ولی عہدنے ایک بار پھر تردید کی کہ انھوں نے اس کا ’حکم دیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جمال خاشقجی کا قتل’سنگین جرم تھا اور سعودی عرب کے ایک رہنما کی حیثیت میں اس کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں، خاص طور پر اس لیے کہ ملوث افراد سعودی حکومت کے لیے کام کرتے تھے۔‘
شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا کہ ’جب کسی سعودی شہری کے خلاف حکومت کے ملازمین جرم کا ارتکاب کرتے ہیں تو ایک لیڈر کی حیثیت سے اس کی ذمہ داری لیتا ہوں۔ یہ ایک غلط کام تھا اور مستقبل میں دوبارہ ایسا نہ ہو، اس کے لیے مجھے تمام اقدامات کرنے ہیں۔ ‘
انھوں نے کہا کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مجھے پتا ہونا چاہیے کہ سعودی حکومت کے تیس لاکھ ملازمین روزانہ کیا کرتے ہیں۔’یہ ممکن نہیں کہ تیس لاکھ افراد اپنے روزانہ کے معمولات کی رپورٹ اپنے لیڈر یا سعودی حکومت میں دوسرے بلند ترین عہدے پر فائز شخص کو ارسال کریں‘۔
جب ان سے اس حوالے سے امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کے بارے میں پوچھا گیا تو ولی عہد نے کہا کہ اگر ایسی کوئی رپورٹ ہے تو وہ امید کرتے ہیں اسے سامنے لایا جائے گا۔
خیال رہے کہ رواں ماہ کے وسط میں سعودی تیل تنصیبات پر ڈرون اور میزائل حملوں کی ذمہ داری پڑوسی ملک یمن کے حوثی جنگجوؤں نے قبول کی تھی تاہم سعودی عرب اور امریکہ نے ان حملوں کا ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا ہے۔
ان حملوں کے بعد سے علاقے میں سخت کشیدگی ہے اور امریکہ نے خلیج اور سعودی عرب میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کیا ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں