Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’خواتین کو بااختیار بنانا ضروری ہے‘

سعودی انسانی حقوق کمیشن میں بین الاقوامی تعاون کونسل کی جنرل منیجر کے طور پر امل یحیی المعلمی کا تقرر ہوا ہے۔فوٹو۔عرب نیوز
 
سعودی انسانی حقوق کمیشن کی جنرل منیجر امل یحیی المعلمی کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے ویژن 2030 میں اصلاحات کے تحت خواتین کو بااختیار بنانا ضروری ہے ۔سعودی عرب کی مثبت اصلاحات کو جنیوا میں انسانی حقوق کونسل میں سراہا جاتا ہے۔
سعودی انسانی حقوق کمیشن میں بین الاقوامی تعاون کونسل کی جنرل منیجر کے طور پر امل یحیی المعلمی کا تقرر ہوا ہے۔ یہ تقررخواتین کو بااختیار بنانے کے لیے ویژن 2030اصلاحاتی منصوبوں کی تکمیل کی جانب نہایت اہم قدم ہے۔
 امل یحیی المعلمی نے عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب نے خواتین کو بااختیار بنانے میں تیزی سے سفر کیا ہے اور ہر روز نئے دروازے کھل رہے ہیں۔وہ ان 6خواتین میں شامل تھیں جنہیں سعودی عرب میں انسانی حقوق کمیشن میں تعینات کیا گیا۔ان کی تعیناتی اس دور کا آغاز ہے جہاں خواتین ہر شعبہ میں مصروف عمل ہیں۔ہم ایسے مرحلے میں پہنچنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جہاں ضروری مہارت حاصل کرسکیں۔
مزید پڑھیں
امل یحیی نے بتایا کہ جب اس عہدہ کے لیے میری تقرری ہوئی تو مبارکباد کی فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔جس میں نہ صرف خواتین بلکہ مرد حضرات بھی شامل تھے۔مبارک باد دینے والوں میں سے ایک کا کہنا تھا کہ سعودی مرد ہمارے قومی فخرکا سرچشمہ ہیں جنہوں نے اپنی بیوی، بیٹی اور ساتھ کام کرنے والی خواتین اور خاندان کی خواتین کی ہمیشہ پذیرائی کی ہے۔ 
 اس تعیناتی سے قبل امل یحیی المعلمی کنگ عبدالعزیز سنٹر برائے قومی مکالمہ میں اسسٹنٹ جنرل سیکرٹری کے ساتھ ساتھ سعودی انسانی حقوق کمیشن کی  ممبر تھیں۔ ویژن 2030کے منصوبوں میں خواتین کے موقف کو فروغ دیا جا رہا ہے جس سے خواتین کو بااختیار بنانے اورانسانی حقوق کے اہم عہدوں پر تقرری اس موقف کو واضح کرتی ہے ۔
 اس مثبت قدم سے جنیوا میں قائم انسانی حقوق کونسل میں ایک بہتر تاثر ابھرنا چاہئے۔ المعلمی نے کہاکہ خواتین کو بااختیار بنانا حقیقی تبدیلی کی طرف اشارہ کرتا ہے، جب کسی خاتون کو بااختیار بناتے ہیں تو بچوں کی حقیقی ماں بننے میں اس کی مدد ہے اور اس سے بچوں جیسا سلوک نہیں ہوتا بلکہ مکمل قانونی اور بااختیار شہری کی حیثیت مل جاتی ہے ۔
انہوں نے مزید کہا کہ خواتین اپنے مسائل حل کرنے کے ساتھ ساتھ بچوں کی ذمہ داریاں بھی سنبھال رہی ہیں اور پاسپورٹ بنوا رہی ہیں، یہ سب اچھے اقدامات ہیں جن سے مقامی اور عالمی سطح پر مثبت ردعمل آئے گا ۔انہوں نے اس بات کا بھی اظہار کیا کہ اس سب کے باوجود سعودی عرب کو بین الاقوامی طور پر مناسب پذیرائی نہیں ملی۔
قبل ازیں ہم ہمیشہ دفاعی پوزیشن میں رہے اور توجیہات پیش کرتے رہے، باہمی گفت و شنید کی بجائے، جہاں وہ ہمیں چیلنج کرتے ہیں اور ہم جواز پیش کرتے ہیں۔ اب ہم اپنے کارنامے دکھائیں گے اور بہترین طریقہ کار طے کریں گے اوراپنے ملک میں جو کچھ حاصل کیا ہے ان کامیابیوں پر بات کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ میرا ہدف مشکل ہے لیکن میرے ذہن میں منصوبے ہیں ، تمام متعلقہ تنظیموں سے موثر رابطے کے بعد بین الاقوامی سطح پر بات چیت ہوگی ۔امید ہے کہ آئندہ سعودی عرب انسانی حقوق کونسل میں شامل ہو کر کونسل کی کارکردگی کو ترقی دینے میں معاون ثابت ہوگا۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں

شیئر: