جن کے پاس اقامہ نہیں یا ختم ہے یا ہے مگر ’ہروب ‘ لگا ہوا ہے وہ ہنڈی کا سہارا لیتے ہیں (فوٹو: سبق)
سعودی عرب میں ترسیلات زر کے سخت قوانین ہیں لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہو گی کہ یہاں بھی ہنڈی کا کاروبار کیا جاتا ہے اور اس میں پاکستانی بھی شامل ہیں۔
سعودی عرب میں غیر قانونی طریقے سے رقم بھیجنا نہ صرف قابل سزا جرم ہے بلکہ سعودی مالیاتی اتھارٹی کے مطابق منی لانڈرنگ میں شمار ہوتا ہے۔
سعودی عرب میں مقیم بیشتر پاکستانی ترسیلات زر کے لیے مختلف بینکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں انہیں اچھے ریٹ بھی مل جاتے ہیں مگر ایسے افراد بھی کم نہیں جو رقوم کی ترسیل کے لیے غیر قانونی طریقے اختیار کرتے ہیں۔
سعودی بینکنگ کے ماہر فضل سعد البوعینین کے مطابق ’سعودی عرب میں غیر قانونی ترسیلات زر کا سالانہ حجم 60 ارب ریال کے قریب ہے۔‘
اب اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے صرف سعودی عرب سے ہنڈی کے ذریعے پاکستان بھیجی جانے والی رقوم کا حجم کتنا ہوگا اور اگر تمام خلیجی ممالک اور دنیا بھر کو شامل کیا جائے تو ملکی معیشت کو پہنچنے والے نقصان کی مالیت کتنی ہو گی۔
دوسری جانب پاکستان کے مشکل معاشی حالات کی وجہ سے تجارتی خسارے کو کم کرنے کے لیے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی جانے والی ترسیلات زر پر کافی انحصار کرتا ہے اور اس حوالے سے خصوصی آگاہی مہم کے ساتھ ساتھ ہنڈی کے نقصانات اور بینکنگ سسٹم کے تحت رقوم کی منتقلی کے فوائد بتائے جاتے ہیں۔
پاکستان بھر میں ہنڈی کا کاروبار کتنا پھیلا ہوا ہے اس کا اندازہ صوبہ سندھ کے ایک چھوٹے شہر میں جانے سے ہوا۔ اس شہر سے بڑی تعداد میں لوگ سعودی عرب میں مقیم ہیں اور اتفاق سے جب یہاں جانا ہوا تو مہینے کا پہلا ہفتہ تھا اور ان دکانوں کے باہر رقوم لینے والے افراد کا رش تھا جہاں ہنڈی کا کاروبار کیا جاتا ہے۔
ہنڈی کا کاروبار کیسے ہوتا ہے؟
ہنڈی کا کاروبار کرنے والوں سے اس کے اسرار و رموز جاننے کا کام انتہائی مشکل بلکہ ناممکنات میں بھی ہے تاہم ہفتہ بھر کی کوشش کے بعد ایک صاحب نے کچھ باتیں بتانے کی حامی بھر لی۔
اس شخص نے بتایا کہ ’سائیں اصل بات یہ ہے کہ ہمیں معمولی کمیشن تو ڈیلر سے ملتا ہے مگر یہ کام ’رکھت‘ پر ہوتا ہے۔‘
’رکھت‘ کیا چیز؟ اس سوال پر انہوں نے جواب دیا کہ ’یہاں زیادہ تر لوگ دادو سے تعلق رکھتے ہیں، اکثر بیچارے ’حارس‘ (بلڈنگ چوکیدار) ہیں۔ ان کی معمولی تنخواہ ہے۔ گاڑیاں دھو کر اور فلائٹوں کا کچرا پھینک کر انہیں اضافی آمدنی ہوتی ہے۔ یہ لوگ کیش پر ڈیلنگ نہیں کرتے بلکہ ’رکھت‘ پر کرتے ہیں‘۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ’رکھت پر پیسہ بھیجنے سے ہمیں فائدہ ہے۔ فرض کر لیں کسی آدمی کے گھر میں کوئی مسئلہ ہوتا ہے اور اسے فوری طور پر پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے یا کوئی کام ایسا ہے جس کے لیے بڑی رقم چاہیے اور وہ رقم ابھی ہاتھ میں نہیں تو وہ ہمارے پاس رکھت پر پیسہ بھیجتا ہے۔ ہم اس کی رقم پاکستان بھیج دیتے ہیں اور پھر طے شدہ دنوں کے بعد یہاں اس سے وصول کرتے ہیں۔‘
میں سمجھ گیا کہ ادھار کی بات کر رہے ہیں اور پوچھا کہ ’پھر اس سے آپ کو کیا فائدہ ہوتا ہے۔‘
کہنے لگے ’رکھت پر رقم بھیجنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ ہے کہ فرض کرلیں کہ اس وقت ریٹ 40 کا چل رہا ہے، رکھت پر ہم 35 میں دیں گے، باقی ہمارا فائدہ ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ بڑی رقم بھیجنی ہے، ایک لاکھ روپیہ کسی کو بھیجنا ہے تو اس سے ہم ایک مہینے کے بعد ایک لاکھ 20 ہزار وصول کرتے ہیں۔‘
اب ان سے مشکل سوال پوچھا کہ ’جمع ہونے والی رقوم آپ روزانہ ڈیلر کو دیتے ہیں۔‘
انہوں نے جواب دیا ’نہیں! ہفتے میں یا 15 دن میں بندہ آتا ہے اور رقم لے جاتا ہے۔‘
ہنڈی مجبوری کیوں؟
یہ بنیادی سوال ذہن میں آتا ہے کہ آخر کیوں لوگ سخت قوانین کے باوجود بینکوں کے ذریعے رقوم ارسال نہیں کرتے؟
ایجنٹ سے تو ہمیں معلوم ہو گیا کہ اس کاروبار کی بنیاد ’رکھت‘ پر ہے مگر سب لوگ تو ایسا نہیں کرتے، ایسے بھی ہوں گے جو کیش ڈیلنگ کرتے ہیں۔ آخر انہیں کیا مجبوری یا فائدہ ہے؟
معمولی تلاش کے بعد مجھے چند بلڈنگز کے چوکیداروں تک رسائی ہوگئی جو ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجتے ہیں۔
ان میں ایک چوکیدار نے بتایا کہ کفیل نے میرا ’ہروب‘ (سپانسر سے فرار ہونے والا کارکن) لگایا ہوا ہے۔ میں بینک کے ذریعے رقم نہیں بھیج سکتا۔‘
گویا ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کی ایک مجبوری یہ ہے کہ وہ لوگ جن کے پاس اقامہ نہیں یا ختم ہے یا ہے مگر ’ہروب‘ لگا ہوا ہے وہ اس کا سہارا لیتے ہیں۔
میں نے پوچھا ’اس کے علاوہ کوئی مجبوری ہے یا کوئی فائدہ ملتا ہے؟‘
انہوں نے کہا ’فائدہ کیا ہے، بس یہ ہے کہ میرا لڑکا گھر کے پاس ہنڈی کے ڈیلر سے رقم اٹھاتا ہے۔ اسے وہاں اپنی شناخت کرانے کی ضرورت نہیں۔ سب جانتے ہیں۔‘
ایک اور شخص نے ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کی ایک اور وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ’سائیں! ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنا مجبوری بھی ہے۔ یہاں میں ’حارس‘ کے طور پر کام کرتا ہوں، میری تنخواہ 1200 ریال ہے، میں گاڑیاں دھو کر، لوگوں کے کچرے اٹھا کر اور ادھر ادھر سے چھوٹا موٹا کام کر کے اوپر کے پیسے کماتا ہوں جو میری تنخواہ سے کہیں زیادہ بنتے ہیں۔ ایسی صورت میں میں بینک کے ذریعے دو ہزار ریال نہیں بھیج سکتا کیونکہ بینک والے پوچھتے ہیں کہ کہاں سے لائے ہو، میں کیا جواب دوں؟‘
گویا معلوم ہوا کہ ہنڈی کے ذریعے رقم بھیجنے کی دوسری مجبوری یہ ہے کہ تنخواہ کے علاوہ اوپر کی آمدنی کہاں سے ثابت کریں گے۔
ان تمام ملاقاتوں کے بعد میں یہ تاثر لے کر نکلا ہوں کہ سعودی عرب میں ہنڈی کا کاروبار محض غیر قانونی سرگرمی نہیں جسے چند افراد سر انجام دے رہے ہیں بلکہ یہ ایک منظم مافیا ہے جو لوگوں کی مشکلات کا فائدہ اٹھاتا ہے اور ان کی سلامتی کو بھی خطرے میں ڈالتا ہے۔
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آخر بڑے ڈیلر جنہیں ماہانہ لاکھوں ریال موصول ہوتے ہیں سعودی عرب میں رہتے ہوئے منی ٹرانسفر کے اتنے سخت قوانین کے باوجود ہر ماہ بڑی رقم پاکستان کیسے ٹرانسفر کرتے ہیں؟
اس کا ایک مطلب یہ ہے کہ اس کاروبار میں ملوث افراد کا دائرہ محض ایجنٹ اور ڈیلر تک محدود نہیں بلکہ یہ ایک منظم نیٹ ورک ہے اور جب تک نیٹ ورک کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک یہ کاروبار کسی نہ کسی شکل میں چلتا رہے گا۔