Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فیس بک کے خلاف مقدمہ درج

اس رپورٹ کے 1200 صفحات ’انتہائی رازدارانہ‘ معلومات پر مشتمل ہے (فوٹو:الامے)
اپنے حریفوں پر سبقت حاصل کرنے کے لیے صارفین کے ڈیٹا کے استعمال پر سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر مقدمہ دائر کیا گیا ہے۔
یہ مقدمہ ایک غیر فعال ادارے سکس فار تھری کی جانب سے کیا گیا ہے۔
سات ہزار صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فیس بک کے بانی مارک زکربرگ اور ان کی ٹیم نے مخصوص ڈیٹا اپنے ان شراکت داروں کے ساتھ ترجیحی بنیادوں پر شیئر کیا ہے جو فیس بک پر اپنے اشتہاروں کے لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی نے امریکی چینل این بی سی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے اس رپورٹ کے سات ہزار صفحوں میں چار ہزار صفحات صارفین کے ذاتی ای میلز اور ویب چیٹ پر مشتمل ہے جبکہ 1200 صفحات ’انتہائی رازدارانہ‘ معلومات پر مشتمل ہیں۔  

 

ان دستاویز کے مطابق کہ دنیا کی بڑی آن لائن کمپنی ایمازون کو صارفین کے مخصوص ڈیٹا تک اس لیے رسائی دی جاتی ہے کہ وہ فیس بک پر اپنے اشتہاروں کے لیے پیسہ خرچ کرتے ہیں جبکہ ’میسج می‘ ایپ کو ڈیٹا دینے سے انکار کیا گیا کیونکہ وہ مقبولیت حاصل کر رہی ہے اور مدمقابل ہوسکتی ہے۔
مقدمے میں فیس بک پر الزام لگایا گیا ہے کہ فیس بک نے صارفین کے ذاتی ڈیٹا کا غلط استعمال کیا ہے۔
فیس بک نے اس کیس کو بے بنیاد قرار دیا ہے۔

فیس بک کے بانی نے صارفین کا ڈیٹا استعمال کرنے کی تصدیق کرچکے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

فیس بک کی درخواست پر عدالت نے اس دستاویز کے بہت سارے معلومات کو بھی سیل کردیا ہے۔
2016 میں برطانوی کنسلٹنگ فرم کیمبرج اینالیٹکا نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارتی مہم کے لیے 87 ملین سے زیادہ صارفین کا ذاتی ڈیٹا استعمال کیا۔
فیس بک پر اس سے پہلے بھی صارفین کا ڈیٹا استعمال کرنے کے الزام لگے ہیں۔
جولائی میں امریکہ کے فیڈرل ٹریڈ کمیشن (ایف ٹی سی) نے فیس بک پر صارفین کے ڈیٹا کی حفاظت اور رازداری میں کوتاہی برتنے پر پانج ارب ڈالرز جرمانہ عائد کیا تھا۔

فیس بک صارفین کے ڈیٹا کی رازداری کی خلاف ورزی پر جرمانہ بھی عائد کیا جاچکا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

فیس بک پر عائد کیا جانے والا جرمانہ صارفین کے ڈیٹا کی رازداری کی خلاف ورزی پر اب تک ہونے والا سب سے بڑا جرمانہ ہے۔
فیس بک ان کمپنیوں کی فہرست میں بھی شامل ہوگیا ہے جنہوں نے یہ تسلیم کیا ہے کہ انہوں نے صارفین کی گفتگو سنی ہے۔
تاہم اس کے ساتھ سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک نے یہ بھی کہا تھا کہ اس نے پیغامات سننے کا یہ سلسلہ اب روک دیا ہے۔  

شیئر: