یہ درست ہے کہ انقلابات نے مشرق وسطی کو ہلا کر رکھ دیا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ کہیں بھی اقتدار میں نیا نظام قائم نہیں ہوا۔ ریاستوں کے سربراہ اقتدار کے ایوانوں سے نکلے تاہم جو نظام پہلے تھا وہی نظام برقرار رہا۔ مصر، تیونس، سوڈان میں یہی ہوا۔ لیبیااور یمن میں ریاستی ادارے مکمل طور پر الٹ پلٹ گئے۔ اس کے باوجود یہ دونوں ملک آج تک کسی متبادل نظام اور کسی موثر ریاست کے بغیر چل رہے ہیں۔
عراق میں جیسا کہ پوری دنیا دیکھ رہی ہے احتجاجی مظاہرے حیرت انگیز ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ کسی کو توقع نہیں تھی کہ مظاہرے مسلسل ہوں گے ،بیشتر شہر لپیٹ میں آجائیں گے اور لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوں گے۔
ٹیلیفون لائنیں کٹی ہوئی ہیں۔ انٹرنیٹ بند ہے۔مخالف ابلاغی مہم چل رہی ہے۔ جان بوجھ کر مظاہرین کو قتل کیا جارہا ہے۔ اس کے باوجود مظاہروں کا سلسلہ رک نہیں رہا ہے۔ مظاہرین نظام حکومت کا دھڑن تختہ کرنے کے سلسلے میں پرعزم نظر آرہے ہیں۔
مظاہرین کا جم غفیر حکومت کو مستعفی ہونے پر مجبور کرسکتا ہے۔بعض فیصلے تبدیل کراسکتا ہے مگر یہ احتجاج نظام حکومت کو الٹ پلٹ کررکھ دے یہ بعید از امکان ہے۔
یہ درست ہے کہ مظاہرین عراقی نظام حکومت کا دھڑن تختہ کرنے میں تو ناکام ہوگئے البتہ یہ درست ہے کہ انہوں نے ریاستی اداروں کی ہیبت ذہنوں سے ختم کردی ہے۔عراق بھر میں مظاہرین کے مطالبات یکساں ہیں۔
مظاہرین عراقی شہروں کے چوراہوں اور شاہراہوں پر چھائے ہوئے ہیں۔حکومت انہیں آگے بڑھنے اور ریاستی اداروں تک پہنچنے سے روکنے کے لیے پل توڑ رہی ہے۔مظاہرین آئل ریفائنریوں کا رخ کررہے ہیں۔ انہوں نے ملک کی واحد بندرگاہ ام قصر پر قبضہ کرلیا ہے۔ یہ لوگ ریاست کے حساس اداروں تک رسائی چاہتے ہیں۔ انہیں اس کی اجازت نہیں دی جارہی۔
ایرانی نظام حکومت مظاہرین کی گھات میں بیٹھا ہوا ہے۔ ایرانی قائدین اور اس کے ماتحت ملیشیائیں عراق میں عوامی تحریک بیداری کے آغاز ہی سے عراق میں ںڈیرہ ڈالے ہوئے ہیں۔ مظاہرین اس منظر نامے سے متاثر ہوکر ہی ایرانی قو نصلیٹ پہنچے تھے۔
یہ درست ہے کہ عراقی مظاہرین تیل تنصیبات اور ام قصر بندرگاہ کو ہدف بناچکے ہیں تاہم میرے خیال سے یہ بات بعید از امکان ہے کہ وہ مکمل ریاستی نظام کو درہم برہم کرنے کی سوچ رکھتے ہوں۔ویسے بھی یہ سوچ نہایت پرخطر ہے۔ اس پر عمل درآمد تقریباً محال ہے۔ ہاں اگر حکومت مظاہرین کے مطالبات نظر انداز کرتی رہی اور اس نے مظاہرین کے قتل کا دائرہ وسیع کردیا تو ایسی صورت میں مظاہرین ریاستی نظام ختم کرنے کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یہ مطالبہ ابھی تک سامنے نہیں آیا مگر آسکتا ہے۔
حکومت مظاہرین کی نظر میں بے دست و پا بنی ہوئی ہے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ حکومت کو میدان میں موجود سیکیورٹی فورس کے اہلکاروں پر کنٹرول حاصل نہیں۔ مسلح ملیشیا بھی حکومت کی دسترس سے باہر ہیں۔ حالانکہ مسلح ملیشیا میں شامل افراد تنخواہ عراقی حکومت سے ہی لے رہے ہیں ۔ وہ تنخواہ عراقی حکومت سے لیتے ہیں اور حکم ایران کا مانتے ہیں۔
عراقی وزیراعظم نے کہا ہے کہ حکومت کا مستعفی ہوجانا بے حد آسان عمل ہے۔ وہ استعفیٰ دے سکتی ہے اس کے پاس مظاہرین کو راضی کرنے کے لیے اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ حکومت کا دھڑن تختہ کرنا آسان ہے لیکن اس کا متبادل بہتر نہیں ہے۔حکومت کے سقوط سے پارلیمنٹ کو مزید اختیار حاصل ہوجائے گا اور پارلیمنٹ حکومت سے بدتر ہے کیونکہ ملیشیا کی نمائندگی پارلیمنٹ میں موجود ہے ۔ بدعنوانی کا سلسلہ بھی پارلیمنٹ تک پھیلا ہوا ہے۔
سوال یہ ہے کہ ریاستی اداروں کی کارکردگی کے نگراں اداروں کا سہارا کیوں نہیں لیا جاسکتا۔جواب یہ ہے کہ یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں جو اعتراضات عام ریاستی اداروں پر ہیں وہی ان پر بھی ہیں۔
واٹس ایپ پر خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں