آج آپ بہت خوش ہیں۔ آپ صبح گھر سے نکلے ہیں، آپ نے بہترین کپڑے پہنے ہوئے ہیں، بناؤ سنگھار کرکے اپنی پسندیدہ خوشبو لگا کر خود کو بہت باوقار اور پرکشش محسوس کر رہے ہیں۔
سڑک سے گزرتے ہوئے ایک کم عمر لڑکی نظر آتی ہے، اس کا لباس میلا کچیلا ہے، بال مٹی سے اٹے ہیں، چہرے پر معصومیت اور دکھ ہے اور بغل میں ایک ننگ دھڑنگ بچہ۔
قریب ہی ایک ادھیڑ عمر کی خاتون لنگڑا رہی ہیں، جن کی ظاہری وضع قطع بھی مختلف نہیں۔
چند گز دور، ایک شخص ویل چیئر پر بیٹھا ہے، عمر کم ہے اور جسم بھی توانا ہے، لیکن ویل چیئر مجبوری کی علامت ہے۔
اسی طرف ایک پیارا سا کم سن بچہ پھٹے پرانے کپڑے پہنے آپ کی طرف رحم طلب نظروں سے دیکھ رہا ہے۔
یہ سب آپ کی مدد چاہتے ہیں۔
آپ ان میں سے مستحق ترین کو خیرات دیتے ہیں۔

اب آپ خود کو اور زیادہ باعزت اور رحم دل انسان سمجھ رہے ہیں کیونکہ آپ نے ضرورت مندوں پر مہربانی کی ہے۔
لیکن جس کو آپ مہربانی سمجھ رہے ہیں وہ سماج دشمنی بھی ہو سکتی ہے۔
آپ کی اس مہربانی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی مدد ہوئی ہے جو بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو استعمال کر کے بھکاری بنا دیتے ہیں۔
زیادہ بہتر ہوتا کہ آپ یہ مدد کسی عمر رسیدہ سکیورٹی گارڈ کی کر دیتے۔
آپ سوچتے ہوں گے کہ سکیورٹی گارڈ کی مدد کیوں؟ اس کے پاس تو پہلے سے نوکری ہے۔
تو اپنے اردگرد دیکھیے، آپ کے قریب ہی کسی عمارت کے باہر ایک ایسا ضعیف العمر سکیورٹی گارڈ کھڑا ہو گا، جس کے چہرے سے عیاں ہو گا کہ اب اس کو کام نہیں آرام کرنا چاہیے۔
آپ ایسے بزرگ کا چھوٹا سا انٹرویو کیجیے۔
کتنی تنخواہ ہے؟ بچے کتنے ہیں؟ کیا بیٹیاں بیاہی گئیں؟ بیٹے پاؤں پر کھڑے ہو گئے؟

آپ ایسے ہی سوالات ایک ایسے نوجوان سے بھی پوچھ سکتے ہیں، جس نے ابھی ابھی سکیورٹی کا نیلا یونیفارم زیب تن کیا ہے۔
اس نوجوان کو تو ابھی کالج کے ابتدائی برسوں میں ہونا چاہیے، لیکن یہ یہاں کیوں کھڑا ہے؟
آپ کو معلوم ہو گا کہ بہت سے گارڈز کی تنخواہ ان کی اپنی خوراک کے لیے بھی ناکافی ہے۔ پھر کسی کی دو دو، تین تین بیٹیاں گھر بیٹھی جہیز کا انتظار کر رہی ہیں، کسی کے بچوں کی سکول فیسیں پوری نہیں ہو رہیں اور کسی کی بہنیں اپنے چھوٹے لاڈلے بھائی سے امید لگائے بیٹھی ہیں کہ وہ پیسے کما کر بھیجے گا تو ان کا مستقبل بنے گا۔
یہ مسائل نہ ہوتے تو ساٹھ پینسٹھ برس کی عمر میں کون ٹھٹھرتی سرد راتوں میں ریستورانوں کے باہر امرا کے لیے دروازے کھول رہا ہوتا یا اوائل جوانی میں کسی میدان میں کرکٹ کھیلنے کے بجائے بندوق اٹھا کر کسی بینک کے باہر پہرہ دے رہا ہوتا۔
آپ اگر ایسے افراد کی چپکے سے مالی مدد کر دیں گے، تو یہ یقیناً ایک بہت بڑی مہربانی ہو گی۔

13 نومبر کو ’عالمی یوم مہربانی‘ منایا جاتا ہے۔ یہ دن سال 1998 سے منایا جا رہا ہے تاکہ دنیا میں دوسروں کے ساتھ مہربانی کرنے کے اطوار فروغ پا سکیں۔
یوں تو قریباً ہر مذہب اور معاشرہ دوسروں سے مہربانی کی تلقین کرتے ہیں اور سبھی والدین اپنے بچوں کو ایسی بے شمار عادات سکھاتے ہیں جن کے ذریعے دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کی جائیں، لیکن اس کے علاوہ بھی کئی عوامل ہیں جن کے ذریعے آپ دوسروں پر مہربان ہو سکتے ہیں۔
آپ جب بھی کسی ریڑھی والے سے سبزی خریدیں، مکئی یا چنے کے دانے، آئس کریم لیں، یا کسی مزدور سے کوئی مزدوری کروائیں اور سمجھیں کہ انہوں نے خوب محنت کی ہے اور ان کی مانگی گئی اجرت جائز ہے تو دو کام کریں۔ ایک تو انہیں انتہائی عزت اور احترام سے مخاطب کریں اور دوسرا ان کو زیادہ پیسے دیں جتنے آپ با آسانی دے سکتے ہیں۔
آپ جب بھی کسی خاتون، بزرگ یا معذور کو بازار میں کوئی چیز بیچتے دیکھیں تو ضرور خریدیں۔

اگر آپ کوئی کاروباری ادارہ چلا رہے ہیں یا کسی دفتر میں افسر ہیں اور آپ کے ماتحت کچھ لوگ کام کرتے ہیں، تو اپنے دفتر میں وہ ماحول بنائیں جو آپ اپنے گھر میں چاہتے ہیں۔
مقام روزگار لوگوں کا دوسرا گھر ہوتا ہے، آپ کے ماتحتوں کو آپ کا خوف نہیں بلکہ آپ سے محبت ہونی چاہیے، آپ کا سلوک ایسا ہو کہ وہ آپ سے جو بھی بات کرنا چاہیں، اپنے کام کے بارے میں، دفترکے بارے میں، آپ کے بارے میں، اپنے کسی مسئلے کے بارے میں، بے دھڑک کہہ لیں بغیر کسی ردعمل کے خوف کے۔
اور اگر آپ کو کسی ماتحت کی بات بری لگے تو فوراً ردعمل مت دیں، بلکہ بعد میں متعلقہ فرد کو اپنے پاس بلا کر اچھے ماحول میں گفتگو کریں اور پھر اس کو دوستانہ انداز میں اس کی غلطی بتا دیں۔ پھر جب تک وہ اپنا کام بہتر نہیں کر لیتا اس کی مدد کریں۔
اپنے ماتحتوں کے اچھے کام کی یکساں تعریف کریں اور کسی مخصوص کارکن کی پسندیدگی کا تاثر مت دیں، چاہے وہ آپ کے کتنا ہی قریب ہو، اس سے نہ صرف دوسروں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے بلکہ ان کی کارکردگی بھی متاثر ہوتی ہے۔
