Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اسرائیل اور حماس کے لیے غزہ میں جنگ بندی کے اگلے مرحلے تک پہنچنا مشکل کیوں؟

جنگ بندی کا پہلا مرحلہ آج ختم ہو رہا ہے جس کے تحت 15 ماہ سے جاری لڑائی میں تعطل آیا (فوٹو:اے ایف پی)
اسرائیل اور حماس نے جنگ بندی کے معاہدے کو اگلے مرحلے میں آگے بڑھانے کے لیے کام شروع کر دیا ہے تاہم، یہ واضح نہیں کہ آیا وہ اس میں کامیاب ہوں گے اور اگر نہ ہو سکے تو آگے کیا ہوگا؟
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق جنگ بندی کا پہلا مرحلہ سنیچر کو ختم ہو رہا ہے جس کے تحت 15 ماہ سے جاری لڑائی میں تعطل آیا، یرغمالیوں اور قیدیوں کا تبادلہ ہوا اور انسانی امداد کی غزہ تک رسائی ممکن ہوئی۔
دونوں فریق جنگ بندی کو برقرار رکھنے کے لیے آمادہ دکھائی دیتے ہیں جبکہ امریکہ، مصر اور قطر کے مذاکرات کاروں کا کہنا ہے کہ بات چیت کا مقصد اگلے مرحلے تک پہنچنا ہے۔
جنوری سے شروع ہونے والی جنگ بندی کی شرائط کے مطابق دوسرے مرحلے کے تحت حماس مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے باقی تمام 19 زندہ یرغمالیوں کو رہا کرے گا۔ اس کے علاوہ دیرپا جنگ بندی اور غزہ کی پٹی سے اسرائیلی انخلا ممکن ہو سکے گا۔
گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران حماس نے ایک ہزار 700 سے زائد فلسطینی قیدیوں کے بدلے 33 یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کیا جبکہ دیگر باقیات واپس کیں۔
اب بھی 59 یرغمالی عسکریت پسند تنظیم کی قید میں ہیں جن میں سے 32 کے حوالے سے یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ ہلاک ہو چکے ہیں۔
اسرائیل مزید یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی ممکن بنانے کے لیے جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں توسیع کا خواہاں ہے۔

جنگ بندی کے اگلے مرحلے تک پہنچنا مشکل ہوگا

غزہ میں جنگ بندی کے اگلے مرحلے تک پہنچنا مشکل ہوگا کیونکہ اس کی وجہ سے اسرائیل کو اپنے دو جنگی اہداف میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا: یرغمالیوں کی بحفاظت واپسی اور حماس کا خاتمہ۔

گذشتہ چھ ہفتوں کے دوران حماس نے 33 زندہ اور ہلاک یرغمالیوں کو اسرائیل کے حوالے کیا (فوٹو: اے پی)

پہلے ہی تناؤ کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ اس معاہدے میں اسرائیل سے کہا گیا ہے کہ رواں ہفتے کے آخر میں جنوبی غزہ سے اپنی فوج کا انخلاء شروع کر دے اور اس عمل کو آٹھ دن میں مکمل کرے۔
ایک اسرائیلی اہلکار نے جمعرات کو بتایا تھا کہ ’اسرائیلی فوج فلاڈیلفی کوریڈور میں غیر معینہ مدت تک موجود رہے گی۔‘
ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ دوسرے مرحلے کے بجائے اسرائیل پہلے مرحلے میں توسیع کی کوشش کرے گا اور قیدیوں کے مزید تبادلے پر زور دے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی سٹیو وِٹکوف نے اتوار کو سی این این کے پروگرام ’سٹیٹ آف دی یونین‘کو انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ ایک طویل پہلے مرحلے کے دوران دوسرے مرحلے پر بات چیت کی اُمید رکھتے ہیں۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس مؤقف کی حمایت نہیں کی ہے۔ وہ حماس کے خلاف جنگ دوبارہ شروع کرنے کے لیے اپنے حکومتی اتحاد کے سخت گیر افراد کے دباؤ میں ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ انہیں دیگر یرغمالیوں کو گھر واپس لانے کے لیے اسرائیلی عوام کے دباؤ کا بھی سامنا ہے۔
سٹیو وِٹکوف نے کہا کہ بنجمن نیتن یاہو تمام یرغمالیوں کو واپس لانے کے لیے پُرعزم ہیں لیکن انھوں نے ایک ’ریڈلائن‘کھینچ رکھی ہے کہ جنگ کے بعد حماس غزہ کا کنٹرول نہیں سنبھالے گی۔
حماس کا کہنا ہے کہ وہ غزہ کا کنٹرول دوسرے فلسطینیوں کے حوالے کرنے کے لیے تیار ہے لیکن اس نے اسرائیل کی اس تجویز کو مسترد کر دیا ہے کہ اس کی قیادت کو جلاوطن کر دیا جائے۔

صدر ٹرمپ نے فروری کے اوائل میں تمام یرغمالیوں کی رہائی کے لیے حماس کوڈیڈلائن دی تھی (فوٹو: روئٹرز)

اس کا مطلب ہے کہ عسکریت پسند گروپ، جو اسرائیل کے وجود کو قبول نہیں کرتا، غزہ میں موجود رہے گا۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک ہتھیار نہیں ڈالے گا جب تک اسرائیل مغربی کنارے، غزہ اور مشرقی یروشلم پر اپنا قبضہ ختم نہیں کرتا۔
دوسری جانب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس معاہدے کے حوالے سے کوئی واضح بات نہیں کی۔
فروری کے اوائل میں انہوں نے تمام یرغمالیوں کو رہا کرنے کے لیے حماس کو ایک ڈیڈلائن دی تھی تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’یہ اسرائیل پر منحصر ہے‘ اور پھر ڈیڈلائن آئی اور گزر گئی۔
صدر ٹرمپ نے غزہ کی تقریباً 20 لاکھ آبادی پر مشتمل فلسطینیوں کو دوسرے ممالک میں منتقل کرنے اور امریکہ کو اس علاقے پر ’قبضہ‘ کرنے کی تجویز دی تھی جس کے بعد ایک نیا تنازع کھڑا ہو گیا تھا۔
اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے اس تجویز کا خیر مقدم کیا تھا جسے فلسطینیوں اور عرب ممالک نے عالمی سطح پر مسترد کر دیا۔
صدر ٹرمپ پہلے تو اپنے اس مؤقف پر قائم رہے لیکن اب انہوں نے ایک حالیہ انٹرویو میں نرم لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ صرف ایک تجویز ہے۔‘

 

شیئر: