پاکستان میں حالیہ کچھ عرصے میں مہنگائی میں اضافے کے خلاف احتجاج بھی ہو چکے ہیں: فائل فوٹو اے ایف پی
ملک میں حکومتی حلقوں، دانشوروں، تجزیہ نگاروں اور اپوزیشن والوں سبھی کی توجہ سیاسی واقعات پر لیکن مہنگائی کا کوئی ذکر ہی نہیں کرتا۔ جس نے عوام کی گردن دبوچ رکھی ہے اور ان کی حالت یہ کر دی ہے کہ جیتے بنے نہ مرتے بنے۔
ویسے کہنے کو کہا جا سکتا ہے کہ مہنگائی کب نہیں تھی۔ ہر دور میں اس پر بہار رہی، کتنے ہی چہرے بدلے، یہ گلشن بدستور بے خزاں رہا۔ پھر آج اس کی دہائی اتنی زیادہ کیوں ہے؟
یہ شکوہ پی ٹی آئی کے ایک ہمدرد نے کیا تو عرض کیا، مچھر ہر دور میں رہا، کون سا زمانہ ہے جب اس کی مدھر بھن بھن نے نیندیں نہ چرائی ہوں لیکن جو ڈنکے ڈینگی مچھر نے بجائے، اس نے روایتی مچھر کا جاہ و جلال ہی ہوا کر دیا جو بے چارہ تھوڑا سا عطیہ خون لے کر جان بخشی کر دیتا تھا، یہ ظالم تو جان مانگتا ہے۔ یہی بات نئی پرانی مہنگائی پر کی جاسکتی ہے۔ یہ سن کر موصوف بدمزہ ہوئے، تھوڑا سا بھنبھنائے اور چلتے بنے۔
مہنگائی کا اوّل اوّل غلغلہ ایوب خاں کے دور میں اٹھا۔ چینی مہنگی ہوئی پھردوسری چیزیں۔ ایک دو برس کے فرق سے اس ابر باراں نے بھارت کا بھی رخ کیا اور وہاں فلمی دنیا سے ایک نغمہ برآمد ہوا۔
پرانے لوگوں کو اب بھی یاد ہوگا۔ بول تھے مہنگائی مار گئی۔ یہ گیت بھارت ہی نہیں ، پاکستان میں بھی یکساں مقبول ہوا اور اس نے دونوں ملکوں کے قومی نہیں تو عوامی ترانے کی شکل ضرور اختیار کر لی حالانکہ تھا یہ مرثیہ۔
مہنگائی کے بارے میں عوام یک زبان ہیں کہ بے طرح مار گئی ہے اور میڈیا بھی انکا ہم نوا ہے لیکن حکومت کا موقف بدلتا رہتا ہے۔ ایک دن وزیر بتاتے ہیں کہ مہنگائی کی شرح پچھلے ادوار کے مقابلے میں کم ہے تو اگلے روز وہ بے ساختہ اقرار کرتے ہوئے اصرار کرتے ہیں کہ یہ مہنگائی تو نواز، زرداری کی لوٹ مار کا نتیجہ ہے۔ ہفتہ بھر پہلے وزیر اعظم نے بھی اپنے خطاب میں یہی کہا کہ ہمارے پہلے سال میں نواز دور کے پہلے سال سے کم مہنگائی ہوئی ہے۔
پچھلے ہفتے حکومت نے بجلی مہنگی کردی۔ میڈٰیا کے پاس ذخیرہ الفاظ محدود ہے چنانچہ اس کی سرخی یا ٹکر کی زباں یوں تھی کہ حکومت نے پھر بجلی بم گرادیا۔ یہ بار بار کی استعمال کی گئی اصلاح ہے۔ چلیے مناسب تھا کہ ایک گوشوارہ بھی دے دیا جاتا کہ چودہ ماہ کے دوران کتنے بجلی بم گرائے جا چکے ہیں۔
خواجہ آصف کا بیان ہے کہ اس حالیہ اضافے سے پہلے، چودہ ماہ کے دوران حکومت بجلی بم گرا کر عوام کی جیب سے 500 ارب روپے نکلوا چکی ہے۔ بہرحال، اس پر پریشان ہونے کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ ایک وفاقی وزیر مراد سعید کی خوشخبری سامنے گئی ہے، یہ کہ ہمارے دور میں عوام سے لی گئی رقم واپس عوام پر ہی خرچ ہوگی۔
یہ کہاں خرچ ہو گی؟ حضور، صرف بجلی کا ریلیف ہی دیکھ لیں، چودہ ماہ میں کتنی بار دیا اور کتنا کتنا دیا۔ چینی 48 سے 70 روپے کر دی اور ٹماٹر 300 کا کلو ہوگیا۔ یہ تو میڈیا کے ذخیرہ الفاظ کی کوتاہی ہے کہ اسے بم گرانے سے تعبیر کرتے ہیں، یہ بھی تو کہ سکتے تھے کہ ریلیف کے پھول برسا دیے۔
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں/بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں