سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے کیس کی سماعت بدھ کو صبح ساڑھے نو بجے ہونا تھی مگر گھنٹوں قبل ہی سپریم کورٹ میں چہل پہل شروع ہو گئی۔ عدالت کی پارکنگ صبح ہی فل ہو گئی تھی اور متعدد وکلا اور صحافیوں کو اپنی گاڑیاں پارلیمنٹ ہاؤس اور دیگر عمارتوں کی پارکنگ میں کھڑی کر کے پیدل آنا پڑا۔
سماعت کے موقع پر سکیورٹی کے سخت انتظامات کیے گئے تھے۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے وکیل فروغ نسیم، جنہوں نے کل ہی وزیر قانون کے عہدے سے استعفیٰ دیا تھا، جب وکلا کے جھرمٹ میں احاطہ عدالت میں داخل ہوئے تو رپورٹرز نے سوالات کی بوچھاڑ کر دی۔ تاہم انہوں نے سلام دعا کے علاوہ کوئی جواب دینے سے گریز کیا اور رپورٹرز اور کیمرہ مینوں کے ساتھ ساتھ کمرہ عدالت کی طرف مسکراتے ہوئے بڑھتے گئے۔
مزید پڑھیں
-
آرمی چیف ایکسٹینشن، نوٹیفیکیشن معطلNode ID: 445161
-
فروغ نسیم آرمی چیف کی نمائندگی کریں گےNode ID: 445231
-
’حکومت آرمی چیف کی توسیع کے مسئلے پر کل تک کوئی حل نکالے‘Node ID: 445316
-
’لگتا ہے حکومت پرویز مشرف کے خلاف کارروائی میں سنجیدہ نہیں‘Node ID: 445366
عدالت کی عمارت کے آس پاس اور اندر بھی پولیس اور سکیورٹی کے اہلکاروں کی معمول سے زائد نفری موجود تھی۔ کورٹ روم نمبر ایک میں داخل ہوئے تو وہاں تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ کمرہ عدالت وکلا، رپورٹرز اور اینکرز سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ کئی سینئر صحافی اور وکلا آج دوسرے شہروں سے خصوصی طور پر عدالت آئے تھے۔
ہر طرف سے پرتجسس سرگوشیوں کی آوازیں آ رہی تھیں۔چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ تقریبا ساڑھے نو بجے کمرہ عدالت میں داخل ہوئے ان کے دائیں جانب جسٹس مظہر عالم اور بائیں جانب جسٹس منصور علی شاہ براجمان تھے۔
سماعت شروع ہوتے ہی چیف جسٹس نے درخواست گزار کے بارے میں استفسار کیا کہ گمشدہ پٹیشنر کا کچھ پتا چلا وہ کدھر رہ گئے۔ اس پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی پیش ہوئے اور کہا کہ اور حالات پیدا ہو گئے ہیں مگر چیف جسٹس نے کہا آپ تشریف رکھیں انہیں حالات میں ہم آگے بڑھیں گے۔
چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ عدالت نے کیس میں سو موٹو نہیں لیا بلکہ درخواست کو ہی سنا جا رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ آرمی چیف کو آئین کی دفعہ 243 کے تحت تعینات کیا گیا ہے اور آرمی کے قواعد کے مطابق توسیع دی گئی ہے۔ عدالت نے ان سے پوچھا کہ توسیع کا ذکر کن قواعد میں ہے؟ جس پر انہوں نے آرمی ایکٹ اور آرمی ریگولیشن کے مینول پڑھ کر سنائے۔ اس موقع پر جج صاحبان نے کہا کہ یہ مینول ہم کل سے مانگ رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں خود یہ آج صبح ملے ہیں اور وہ فوٹو کاپی کرا کر لائے ہیں۔ یہ مارکیٹ میں بھی دستیاب نہیں۔
سماعت کے دوران توسیع کے ذکر پر اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق کیانی کو جسٹس کیانی کہہ دیا جس پر چیف جسٹس نے تصیح کرائی اور کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔

سماعت کے دوران متعدد تکنیکی امور زیر بحث آتے رہے اور ججز آپس میں مشاورت کرتے رہے جبکہ اٹارنی جنرل خاص طور پر جسٹس منصور کے تکنیکی سوالات کے جوابات دینے میں کافی پریشان نظر آئے۔متعدد بار انہیں ججز نے کہا کہ ہمارے پورے سوال پہلے سن لیں تاکہ آپ کو جواب دینے میں آسانی ہو۔ایک بار تو چیف جسٹس نے ان سے پوچھا ’اٹارنی جنرل صاحب آپ جلدی میں تو نہیں؟‘۔۔جس پر انہوں نے کہا کہ نہیں وہ تو رات تک سماعت کے لیے تیار ہیں۔ دن کے وقفے سے پہلے چیف جسٹس نے کہا کہ ابھی تک رولز کی سکیم سمجھ نہیں آ رہی جس پر جسٹس منصور نے کہا کہ ایسے میں چائے کا کپ چاہیے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ انہیں بھی سٹرانگ کافی کا کپ درکار ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت ہے کسی شخصیت کا معاملہ نہیں اگر سب قانون کے مطابق ہے تو عدالت کو کوئی اعتراض نہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے متعدد بار اٹارنی جنرل سے سوال کیا کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کتنی ہوتی ہے اور اس کا دورانیہ کس قانون میں درج ہے جس پر اٹارنی جنرل نے انہیں میجر سے لے کر لیفٹیننٹ جنرل تک کی ریٹائرمنٹ کی معیاد بتائی۔شام کی سماعت میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ رول 262 میں ایک جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر مقرر نہیں کی گئی ہے۔ جس پر جسٹس منصور کا کہنا تھا کہ یہ عجیب سی بات ہے اور ایک افسر یہ سمجھ سکتا ہے کہ وہ ھمیشہ رہے گا۔
ایک موقع پر جب آرمی ایکٹ کے رولز 1954 پر بات ہو رہی تھی تو چیف جسٹس نے کہا کہ اس کے اندر حلف کا بھی ذکر ہے جس میں کہا گیا ہے کہ آئین کا وفادار رہوں گا۔ انہوں نے حلف پڑھ کر بھی سنایا اور کہا کہ یہ بہت بڑا حلف ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دفاع وطن کے لیے جان بھی دینی پڑی تو دوں گا۔
