سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے خلاف درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کرتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن بدھ تک کے لیے معطل کر دیا ہے۔
منگل کو پاکستان کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن معطل کرتے ہوئے آرمی چیف سمیت فریقین کو نوٹس جاری کر دیا۔
عدالت نے قرار دیا ہے کہ ’سکیورٹی صورتِ حال واضح اصطلاح نہیں اور اس کی بنیاد پر کوئی بھی اعلٰی افسر توسیع کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ ‘
ایک دن قبل پیر کو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے فیصلے کے خلاف جیورسٹس فاونڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی نے دائر کی تھی جس پر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں عدالت کے تین رکنی بینچ نے منگل کو ابتدائی سماعت کی۔
سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کی جانب سے سادہ کاغذ پر درخواست واپس لینے کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا۔ چیف جسٹس نے اپنی ریٹائرمنٹ سے چند روز قبل اپنا پہلا ازخود نوٹس لیتے ہوئے اسے عوامی اہمیت کا معاملہ قرار دیتے ہوئے آرٹیکل 184(3) کے تحت سننے کا فیصلہ کر لیا۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے کہ ’وزیر اعظم کو آرمی چیف کی تقرری کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع صدر کی منظوری کے بعد کی گئی۔ کابینہ سے سمری کی منظوری بھی لی گئی۔ پشاور ہائیکورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی۔‘
-
’باہر جانے کی اجازت عدلیہ نے نہیں وزیراعظم نے دی‘Node ID: 444281
-
غداری کیس: وفاقی حکومت کی درخواست پر آج سماعت ہوگیNode ID: 445011
-
پاکستانی فوج میں نئی تقرریاں اور تبادلےNode ID: 445061چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ "صدر نے 19 اگست کو توسیع کی منظوری دی۔ 21 اگست کو وزیر اعظم نے کیسے منظوری دے دی۔ سمجھ نہیں آرہا صدر کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے دوبارہ کیوں منظوری دی۔" اٹارنی جنرل نے موقف اپنایا کہ کابینہ کی منظوری کے بعد وزیر اعظم نے دستخط کیے۔
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کابینہ اور وزیر اعظم کی منظوری کے بعد کیا صدر نے دوبارہ منظوری دی؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ صدر مملکت نے کوئی منظوری نہیں دی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حتمی منظوری تو صدر نے دینا ہوتی ہے۔ صدر نے کابینہ سے پہلے جو مننطوری دی وہ شاید قانون کے مطابق صحیح نہ ہو۔21 اگست کو کابینہ کے سامنے آپ نے صدر صاحب کو رکھا دیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ہم صدر مملکت سے دوبارہ منظوری لے سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال کیا کہ آرمی چیف کب ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائر ہو رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے اسفتسار کیا کہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کر دیا۔ پھر وزیراعظم کو بتایا گیا آپ نہیں کر سکتے۔ کابینہ نے جاری شدہ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ قانون میں توسیع کے لیے کوئی شق ہے؟ اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ کے تحت ریٹائرمنٹ سے قبل سیکیورٹی صورتحال کی بنیاد پر توسیع کا جواز پیش کیا۔ جس پر عدالت نے کہا کہ یہ اصطلاح غیر مبہم ہے۔ اس کی بنیاد پر کوئی بھی آرمی افسر توسیع کی درخواست دے سکتا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئیں۔ کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن اپلائی کیا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ ’توسیع کی منظوری سرکولیشن سے کابینہ سے لی گئی۔ صدر کی منظوری پہلے ہوئی کابینہ سے منظوری بعد میں لی گئی۔ آرمی چیف کی توسیع کی سمری کابینہ کے 25 میں سے صرف 11 ارکان نے منظور دی۔ 14 ارکان خاموش رہے ان کے ناموں کے سامنے اویٹڈ لکھا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دیگر 14 ارکان توسیع نہیں دینا چاہتے تھے۔ مگر آپ نے انکی خاموشی کو اقرار سمجھا۔ کیا کہا جا سکتا ہے کابینہ نے اکثریت سے منظوری دی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’جمہوریت میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔ جن ارکان نے جواب نہیں دیا, انکا انتظار کرنا چاہیے تھا۔ ان ارکان نے 'ناں' بھی تو نہیں کی۔ کیا حکومت کابینہ ارکان کی خاموشی کو ’ہاں‘ سمجھتی ہے؟ کیا نوٹیفیکیشن کابینہ سے منظوری کے بعد وزیراعظم سے ہوتے ہوئے صدر تک نہیں جانا چاہیے تھا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’آرٹیکل 255 کے تحت ازسر نو تقرری کا اختیار نہیں توسیع کا ہے۔آرمی چیف کا تین سال کیلئے تقرر کیسے کیا گیا۔‘
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ’سمری میں توسیع کا لفظ استعمال کیا گیا جبکہ ازسر نو تقرری کی جا رہی ہے۔‘
عدالت نے اٹارنی جنرل کی درخواست پر سماعت کل بدھ تک ملتوی کرتے ہوئے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن بھی کل تک معطل کر دیا۔ عدالت نے آرمی چیف سمیت دیگر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں