پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے حکومت سے کہا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق جمعرات تک کوئی حل نکال لے۔ ’عدالت تین نکات کا جائزہ لے گی اور دیکھا جائے گا کہ توسیع یا دوبارہ تقرری کس قانون کے تحت کی گئی ہے؟ تقرری کے لیے درست طریقہ کار اپنایا گیا ہے یا نہیں؟ اور یہ بھی کہ دوبارہ تعیناتی کی وجوہات کیا ہیں؟‘
آرمی چیف جنرل باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔
بدھ کو کیس کی عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران دو مرتبہ وقفہ ہوا۔کیس کی مزید سماعت اب جمعرات کی صبح ہو گی۔
مزید پڑھیں
-
آرمی چیف ایکسٹینشن، نوٹیفیکیشن معطلNode ID: 445161
-
’جسٹس کیانی نہیں جنرل کیانی اور قہقہے گونج اٹھے‘Node ID: 445341
-
خصوصی عدالت کو مشرف کیس کا فیصلہ سنانے سے روک دیا گیاNode ID: 445366
تعیناتی اور مدت ملازمت سے متعلق اٹارنی جنرل کے دلائل پر چیف جسٹس نے کہا کہ جب آئینی اور قانونی طریقہ کار موجود ہو تو پھر روایات کا سہارا نہیں لیا جا سکتا۔ روایات برطانوی آئین سے لی جاتی ہیں جبکہ وہاں تحریری آئین نہیں تھا۔
ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے نے اپنا موقف بدلتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت کم کرکے دوبارہ تعینات کیا۔ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اب آپ نے بالکل نئی بات شروع کر دی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی کو بغیر کمانڈ کے نہیں چھوڑا جا سکتا جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ کوئی نہیں چاہتا آرمی کماںڈ کے بغیر رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ وزارت قانون کی پوری کوشش ہے کہ آرمی کو بغیر کمانڈ رکھا جائے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسے تو اسسٹنٹ کمشنر کی تعیناتی نہیں ہوتی جیسے آرمی چیف کو کیا جا رہا ہے۔ ’آرمی چیف کو شٹل کاک کیوں بنایا گیا؟ آرمی بغیر کمانڈ ہوئی تو ذمہ دار کون ہوگا؟ آج آرمی چیف کے ساتھ یہ ہو رہا تو کل صدر اور وزیراعظم کے ساتھ ہوگا۔‘
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ سمری میں کچھ لکھا گیا ہے، وزیر اعظم کے جاری کیے گئے نوٹفیکیشن میں کچھ اور ہے جبکہ صدر کا نوٹیفکیشن الگ کہانی بیان کر رہا ہے۔ کون لوگ ہیں جو یہ سب کر رہے ہیں۔ ان کی ڈگریاں چیک کروائیں۔ آئینی اداروں میں روز ایسا ہوتا رہا تو مقدمات کی بھرمار ہو گی۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ آپ خود کہتے ہیں توسیع اور تعیناتی الگ چیزیں ہیں۔ کل تک کوئی حل نکال لیں، ناجائز کسی کو کچھ نہیں کرنا چاہیے۔ اگر غیر قانونی ہے تو ہمارا حلف ہے اور ہم اس کی پاسداری کریں گے کیوںکہ ہم نے اللہ کو جواب دینا ہے۔
سماعت ختم ہونے سے قبل چیف جسٹس نے فروغ نسیم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ جمعرات کو اپنا وکالت نامہ اور لائسنس کا معاملہ حل کرکے آئیں۔ فروغ نسیم نے کہا کہ سپریم کورٹ اور اٹارنی جنرل کے فیصلے کے مطابق ان کا لائسنس بحال ہے۔ اس پر پاکستان بار کونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ نے کہا کہ فروغ نسیم کا لائسنس معطل ہے وہ دلائل نہیں دے سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک الگ معاملہ ہے اور عدالت میں زیر سماعت نہیں ہے اس لیے بہتر ہے کہ آپ اس کو حل کرکے آئیں۔ ’ایسا نہ ہو کہ جمعرات کا پورا دن اس میں گزر جائے اور اصل معاملہ لٹک جائے۔‘
کیس کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل آف پاکستان نے انکشاف کیا کہ ’آئین کے تحت وزیراعظم پاک فوج کے ماضی میں کسی بھی ریٹائر ہونے والے جنرل کو آرمی چیف تعینات کر سکتے ہیں کیونکہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ ریٹائرڈ جنرل آرمی چیف نہیں بن سکتا۔‘
وقفے کے بعد سماعت کے دوران چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ ’وہ اپنے دلائل سے عدالت کو مطمئن کرنا چاہیں گے یا آئین قانون اور ریگولیشنز پڑھنا پسند کریں گے۔‘ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’وہ عدالت کی صوابدید پر ہیں۔‘ عدالت نے کہا کہ وہ قانون سمجھنا چاہیں گے جس کے تحت آرمی چیف کی تقرری یا مدت ملازمت میں توسیع کی جا سکتی ہے۔
عدالت نے کہا کہ آرٹیکل 243 پڑھ لیا ہے آپ آرمی ایکٹ سے شروع کریں۔ اٹارنی جنرل نے آرمی ایکٹ اور اس کے تحت بننے والے ریگولیشنز سے کئی ایک اہم عہدوں کی تعریفات اور آرمی افسران سے متعلق شقیں پڑھ کر سنائیں۔
جونیئر افسر کی تعریف پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’یہ کیا تعریف ہے کہ جونیئر افسر وہ ہوتا ہے جو جونیئر افسر ہوتا ہے۔ اس کی کچھ وضاحت ہونی چاہیے۔‘
تمام قواعد اور ریگولیشنز پڑھ لینے کے بعد چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ان میں کہیں بھی توسیع اور دوبارہ تقرری کا ذکر نہیں ملتا۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’ابھی تک ایک بھی ایسی شق نہیں ملی جس کے تحت کسی شاندار افسر کو یہ کہہ کر روک لیا گیا ہو کہ آپ ریٹائر نہ ہوں ہمیں آپ کی ضرورت ہے۔‘
اٹارنی جنرل نے موقف اختیار کیا کہ ’توسیع یا ریٹائرمنٹ کا ریگولیشنز میں ذکر ہے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’176 کے تحت بننے والے رولز اور ریگولیشنز میں صرف وہی چیز شامل کی جا سکتی ہے جو آرمی ایکٹ میں موجود ہے۔ کیا ریگولیشنز ایکٹ سے متجاوز ہو سکتے ہیں؟‘
ایک موقع پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’پاک فوج جمہوری ادارہ نہیں بلکہ یہ کمانڈ انسٹی ٹیوشن ہے۔‘ جس پر جسٹس منصور علی شاہ نے برجستہ جواب دیا کہ ’یہ ہم سب جانتے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے فوجی اہلکاروں کا حلف پڑھا جس کے آخر میں درج تھا کہ وہ دفاع وطن کی خاطر اپنی جان تک قربان کرنے سے دریغ نہیں کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ’ یہ بہت بڑی اور بہت اچھی بات ہے۔‘ اس کے بعد چیف جسٹس نے کمیشنڈ افسران کا حلف پڑھا جس میں درج تھا کہ وہ فوج میں رہتے ہوئے سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔ جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے گونج اٹھے۔
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یاد رکھیے یہ قانون کی عدالت ہے یہاں قانون اہم شخصیات نہیں۔ اگر قانونی طور پر غلط ہے تو قانونی فیصلہ ہوگا اور اگر قانونی طور پر درست ہے تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رولز میں لکھا ہوا ہے کہ ’افسران کی مدت ملازمت پوری ہونے پر ان کو ریلیز اور ڈسچارج کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ 255 ریگولیشنز کے تحت تو ریٹائرڈ فوجیوں کو جنگ یا کسی جرم کی سزا دینے کے لیے ریٹائرمنٹ معطل کرکے واپس لایا جاتا ہے یا آرمی چیف کسی افسر کی جنگی صورت حال کے باعث ریٹائرمنٹ میں کچھ عرصے کے لیے تاخیر کر سکتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اس کے لیے آرمی ایکٹ کی شق 92 ہے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’پھر بتایا جائے کہ جن تین سابق افسران کو حاضر کرکے سزا دی گئی انھیں کس قانون کے تحت واپس لیا گیا۔‘ عدالت نے ان افسران کے خلاف مقدمات کا ریکارڈ بھی طلب کر لیا۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ’آرٹیکل 243 کے تحت آرمی چیف کی تعیناتی وزیراعظم کا اختیار ہے جبکہ ریگولیشنز 255 کا تعلق وفاقی حکومت سے ہے۔‘ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’آرمی چیف کا عہدہ جنرل رینک ہے، اس لیے 255 رینک کو ڈیل کرتا ہے۔‘
عدالت کے مانگنے پر اٹارنی جنرل نے آرمی چیف کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن پیش کیا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے کہ ’اس نوٹیفیکیشن میں تین سال کا ذکر نہیں ہے۔‘ چیف جسٹس بولے ’پھر توسیع کی کیا ضرورت ہے، چلتے رہیں ۔‘جسٹس منصور علی شاہ نے پوچھا کہ ’کیا تین سال بعد آرمی چیف ریٹائر ہو جاتے ہیں؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’جنرل کی ریٹائرمنٹ کی کوئی عمر نہیں ہے۔‘ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’اس کا مطلب ہے کہ ماضی میں جتنے بھی جنرل رہ چکے ہیں ان میں کسی کو بلا کر وزیر اعظم آرمی چیف لگا دیں؟ جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’اس آئین کے مطابق اس پر کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔‘
اس سے قبل بدھ کی صبح سماعت کے آغاز پر درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش ہوئے تو چیف جسٹس نے کہا کہ ’ریاض حنیف راہی صاحب آپ کہاں رہ گئے تھے؟ کل آپ تشریف نہیں لائے۔ ہم نے آپ کی درخواست زندہ رکھی ہے۔‘
اس پر ریاض حنیف راہی نے کہا کہ ’حالات کچھ ایسے پیدا ہو گئے تھے۔‘ چیف جسٹس نے کہا کہ’ ہم انہی حالات میں آگے بڑھ رہے ہیں، آپ تشریف رکھیں۔‘
سماعت میں اٹارنی جنرل انورمنصور نے عدالت سے کہا کہ ’وہ کچھ وضاحت پیش کرنا چاہتے ہیں کہ کل منگل کو عدالتی حکم میں بعض غلطیاں ہیں جس میں کہا گیا تھا کہ صرف 11 ارکان نے کابینہ میں توسیع کی منظوری دی۔ ایک تازہ فہرست آئی ہے جس کے مطابق 19 ارکان نے منظوری دی۔ رول 19 کے مطابق جواب نہ آنے کا مطلب ہاں ہے۔‘
اس پر بینچ میں شامل جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ’کابینہ کے ارکان نے مقررہ وقت تک جواب نہیں دیا تھا جبکہ چیف جسٹس نے کہا کہ ’اب تو حکومت اس کارروائی سے آگے جا چکی ہے، رول 19 میں وقت مقرر کرنے کی صورت میں ہی ہاں تصور کیا جاتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ایک بات طے ہے کہ عدالت نے جن خامیوں اور کمزوریوں کا ذکر اپنے فیصلے میں کیا حکومت نے ان کو مانا اور تصحیح کرنے کی کوشش بھی کی۔‘
اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’حکومت نے عدالت کی جانب سے بتائی گئی خامیوں کو تسلیم نہیں کیا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’دوبارہ کابینہ کا اجلاس بلایا گیا، دوبارہ سمری بھیجی گئی۔‘ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’ایسا کچھ نہیں ہوا، پہلے مجھے سن لیں تو بات واضح کرنا چاہتا ہوں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’ ٹھیک ہے اگر صورت حال پہلے جیسی ہے تو بتا دیں ہم قانون کے مطابق فیصلہ کردیتے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے کابینہ کی نئی منظوری عدالت میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’آرٹیکل 243 کے مطابق صدرمملکت افواج پاکستان کے سپریم کمانڈر ہیں جو وزیراعظم کی سفارش پرافواج کے سربراہ تعینات کرتے ہیں۔‘
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’ازسرنو اور توسیع کے حوالے سے قانون دکھائیں جس پرعمل کیا۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’آرٹیکل 243 میں تعیناتی کا ذکر ہے۔ کیا تعیناتی کی مدت کا بھی ذکر ہے اور کیا ریٹائرڈ جنرل کو آرمی چیف لگایا جاسکتا ہے؟‘
اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’شائد ریٹائر جنرل بھی بن سکتا ہو لیکن آج تک ایسی کوئی مثال نہیں، جبکہ مدت تعیناتی نوٹیفیکیشن میں لکھی جاتی ہے جو صوابدید ہے اور آرمی ریگولیشنز آرمی ایکٹ کے تحت بنائے گئے ہیں۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’انتہائی اہم معاملہ ہے اور اس میں آئین خاموش ہے۔ 7-5 جنرل دس دس سال تک توسیع لیتے رہے۔ کسی نے پوچھا تک نہیں۔ آج یہ سوال سامنے آیا ہے۔ اس معاملے کو دیکھیں گے تاکہ آئندہ کے لیے کوئی بہتری آئے۔ تاثر دیا گیا کہ آرمی چیف کی مدت 3 سال ہوتی ہے۔‘
بینچ میں شامل جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ’ آپ نے آج بھی ہمیں آرمی ریگولیشنز کا مکمل مسودہ نہیں دیا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جو صفحات آپ نے دیے وہ نوکری سے نکالنے کے حوالے سے ہیں۔
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ’آرمی چیف کی مدت 3 سال کہاں مقرر کی گئی ہے۔ کیا آرمی چیف 3 سال بعد گھر چلا جاتا ہے؟‘ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’آرمی چیف کی مدت تعیناتی کا کوئی ذکر نہیں۔‘
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’کیا دستاویزات کے ساتھ آرمی چیف کا تقررنامہ ہے؟ جنرل قمر باجوہ کی بطور آرمی چیف تعیناتی کا نوٹیفیکیشن کہاں ہے؟ کیا پہلی بارجنرل باجوہ کی تعیناتی بھی 3 سال کے لیے تھی؟ آرمی چیف کی مدت تعیناتی طے کرنے کا اختیار کس کو ہے؟‘
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ ’آرمی چیف کی تعیناتی کی مدت پر قانون خاموش ہے اور آرٹیکل 243 کے تحت کابینہ سفارش نہیں کر سکتی۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’کابینہ کی سفارش ضروری نہیں تو دو بار معاملہ کابینہ کو کیوں بھیجا؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’عدالت کو قائل کرنے کی کوشش کروں گا کہ تعیناتی میں توسیع بھی شامل ہوتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ’ ریٹائرمنٹ دو اقسام کی ہوتی ہے، ایک مدت ملازمت پوری ہونے پر اور دوسری وقت سے پہلے ریٹائرمنٹ، ہمیں بتائیں آرمی چیف ریٹائر کیسے ہو گا? نارمل ریٹائرمنٹ تو عمر پوری ہونے پر ہو جاتی ہے۔ آرمی ریگولیشن کی شق 255 کو ریٹائرمنٹ کے معاملے کے ساتھ پڑھیں تو صورت حال واضح ہو سکتی ہے۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ’ آرٹیکل 255 اے کہتا ہے اگر جنگ لگی ہو تو چیف آف آرمی سٹاف کسی کی ریٹائرمنٹ کو روک سکتا ہے، یہاں تو آپ چیف کو ہی سروس میں برقرار رکھ رہے ہیں۔ قانون کے مطابق آرمی چیف دوران جنگ افسران کی ریٹائرمنٹ روک سکتے ہیں۔ لیکن حکومت آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ کو روکنا چاہتی ہے۔ آپ کا سارا کیس 255 اے کے گرد گھوم رہا ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’1948 سے آج تک تمام آرمی چیفس ایسے ہی تعینات ہوئے اور ریٹائرمنٹ کی معطلی عارضی نہیں ہوتی۔‘
اٹارنی جنرل نے سابق آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو جسٹس کیانی کہہ کر ان کو توسیع کی مثال دی تو چیف جسٹس نے انہیں ٹوکا کہ ’وہ جسٹس نہیں جنرل کیانی تھے۔‘ اس پرعدالت میں قہقے گونج اٹھے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ’ کیا 3 سالہ مدت کے بعد آرمی چیف فوج میں رہتا ہے یا گھر چلاتا ہے؟‘ چیف جسٹس نے کہا کہ ’فوجی افسران سروس کی مدت اور مقررہ عمر کو پہنچنے پر ریٹائر ہوتے ہیں۔ قانون سمجھنا چاہتے ہیں ہمیں کوئی جلدی نہیں۔‘ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’میں تو رات تک دلائل دینے کے لیے بھی تیار ہوں۔‘
جسٹس منصورعلی شاہ نے کہا کہ ’آئینی عہدے پر توسیع آئین کے تحت نہیں۔ عارضی سروس رولز کے تحت دی گئی۔ بظاہر تعیناتی میں توسیع آرمی ریگولیشنز کے تحت نہیں دی گئی۔‘
انھوں نے کہا ’243 کے تحت تعیناتی آئینی ہے تو دوبارہ تقرری کے لیے ضمنی قانون کا سہارا کیوں لیا جاتا ہے؟ ‘
چیف جسٹس نے کہا کہ ’آپ 255 میں ترمیم کر کے آ گئے ہیں جس کا توسیع یا تقرری سے تعلق ہی نہیں۔ آگر آپ ریگولیشن کی سکیم دیکھیں تو 255 ریٹائرمنٹ کے بعد آتا ہے جس کا تعلق ریٹائرڈ افسران کو ضرورت کے تحت یا سزا دینے کے لیے ریٹائرمنٹ معطل کرنے سے ہے۔ ‘
سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی مدت میں توسیع سے متعلق کیس کی سماعت میں دن ایک بجے تک وقفہ کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا کہ اٹارنی جنرل خود کو تیار کریں اور بتائیں کہ قانون میں دوبارہ تعیناتی کا ذکر کہاں ہے؟
اس سے پہلے منگل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کے متعلق حکومت کے نوٹیفیکیشن کو بدھ تک کے لیے معطل کر دیا تھا اور آرمی چیف سمیت فریقین کو نوٹس جاری کیے تھے۔
آرمی چیف کی توسیع کے خلاف درخواست جیورسٹس فاؤنڈیشن کے وکیل ریاض حنیف راہی نے دائر کی تھی لیکن منگل کو سماعت کے آغاز پر درخواست گزار کی جانب سے سادہ کاغذ پر درخواست واپس لینے کی درخواست کی گئی جسے عدالت نے مسترد کر دیا تھا۔
چیف جسٹس نے مدت ملازمت میں توسیع کے نوٹیفیکیشن کے طریقہ کار پر سوالات اٹھاتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ’وزیراعظم کو آرمی چیف کی تقرری کا اختیار حاصل نہیں ہے۔ صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں۔‘
عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ ’سکیورٹی صورتِ حال واضح اصطلاح نہیں اور اس کی بنیاد پر کوئی بھی اعلیٰ افسر توسیع کا مطالبہ کر سکتا ہے۔‘
مزید پڑھیں
-
’ایکسٹینشن کا نوٹیفیکیشن جاری ہو چکا ہے‘Node ID: 441441
-
آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع کا نوٹیفیکیشن معطلNode ID: 445161
چیف جسٹس نے اسفتسار کیا تھا کہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کر دیا۔ پھر وزیراعظم کو بتایا گیا آپ نہیں کر سکتے اور پھر کابینہ نے جاری شدہ نوٹیفکیشن کی تاریخ سے توسیع کی منظوری دی۔
منگل کو اس معاملے پر وفاقی کابینہ کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس کے بعد وزیر تعلیم شفقت محمود نے بتایا کہ ’وفاقی کابینہ نے ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کرتے ہوئے ’مدت ملازمت میں توسیع‘ کے الفاظ کا اضافہ کیا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت مدت ملازمت میں توسیع وزیراعظم کی صوابدید ہے، وہ صدر کو ایڈوائس جاری کر سکتے ہیں۔‘
اسی بریفنگ میں وفاقی وزیر شیخ رشید احمد نے کہا تھا کہ ’وزیر قانون فروع نسیم اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں اور بدھ کو وکیل کی حیثیت سے آرمی چیف کی طرف سے سپریم کورٹ میں پیش ہوں گے۔‘
شیخ رشید نے کہا تھا کہ ’کابینہ کے اجلاس میں تمام وزرا اور اتحادیوں نے آرمی چیف کی مدت میں توسیع دینے کے فیصلے کو سراہا۔‘
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ میں شامل ہوں