خبر گرم ہے کہ وکیلوں نے لاہور میں دل کے ہسپتال پر ’پتھردل‘ کے ساتھ منظم حملہ کیا جو واقعی تاریخ کا ایک ایسا افسوسناک واقعہ ہے جس کا طعنہ شاید وکیل برادری کو جانے کب تک سہنا پڑے کیونکہ دونوں فریقین کا تعلق معاشرے کے پڑھے لکھے باعزت طبقات سے ہے۔
اگرچہ چند روز قبل ہونے والے جھگڑے کے بعد وکلا اور ڈاکٹروں میں صلح ہو چکی تھی پھر بھی وکلا نے ہسپتال پر دھاوا بولا۔
افراد کے مابین ہونے والے جھگڑے جب بڑھ کر اداروں کے درمیان پہنچ جائیں تو وہ خطرناک صورتحال اختیار کر جاتے ہیں۔ ماضی میں ڈاکٹروں کے ساتھ ایک مرتبہ صحافی بھی نبرد آزما ہوئے تھے اس واقعے میں، میں بھی شامل تھا۔
مزید پڑھیں
-
کیا میرزا غالب مارکیٹنگ کے گرو تھے؟Node ID: 447156
-
پشاور کا ڈھابہ اور وہاں چائے پیتی لڑکیاںNode ID: 447171
-
حسن علی کا ’ہندی‘ میں جوابNode ID: 447656
-
کھرب پتی لکڑ ہارے کی کہانیNode ID: 448066
وہ گیارہ ستمبر1997 کا دن تھا۔ ہم چاندنی چوک کے قریب ایک پریس کانفرنس کی کوریج میں مصروف تھے کہ خبر ملی کہ جنرل ہسپتال (موجوہ بے نظیر بھٹو ہسپتال) میں ایک زخمی کی تصویر بنانے پر فوٹو جرنلسٹ ذوالفقار خان زلفی کے ساتھ ڈاکٹرز نے مار پیٹ کی اور کیمرہ چھین لیا گیا ہے۔ ہم سات کے قریب فوٹو گرافر فوری طور پر ہسپتال پہنچے۔
ایمرجنسی میں ڈپٹی میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کے کمرے میں زلفی نم آنکھوں کے ساتھ سہما ہوا بیٹھا تھا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کرہم سبھی سیخ پا ہو گئے۔ ڈی ایم ایس سے بات چیت کے ذریعے کیمرہ واپس لینے کی کوشش کی مگر اس نے ہمیں بھی کھری کھری سنا دیں۔
بات بڑھی دلیل کے خاتمے نے تشدد کو جنم دیا اور نوبت ہاتھا پائی تک آ گئی اور ہم نے مل کر ڈی ایم ایس کی دھنائی کر دی اور وہ موقع سے فرار ہو گیا۔ زلفی کا ہاتھ پکڑ کر ہم ایمرجنسی سے باہر نکلے ہی تھے کہ ینگ ڈاکٹرز کے ایک بڑے جتھے نے ہم پر دھاوا بول دیا۔
کچھ ساتھی چند گھونسے لاتیں کھا کر بھاگنے میں کامیاب ہوئے جبکہ میں اور زلفی پوری طرح ان کے ہتھے چڑھ گئے انہوں نے دل کھول ہماری تواضع کی اور نڈھال ہونے پر ہمیں سٹور روم میں لے جا کر باہر سے تالہ لگا دیا۔
چونکہ خبر پھیل چکی تھی سو ایک گھنٹہ بعد جب سٹور کا دروازہ کھلا تو ہمیں کرائم رپورٹرز راجہ عاطف اور وقار کاظمی سمیت درجن بھر غصے سے بپھرے ہوئے چہرے دکھائی دیے۔
ہمیں وہاں سے سٹریچرز پر ڈال کر راولپنڈی پریس کلب لایا گیا اور وہاں سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا، لیکن وہاں ڈاکٹرز نے ایمرجنسی کے دروازے بند کروا دیے اور ہمارا علاج کرنے سے یکسر انکار کر دیا کیونکہ ڈاکٹرز کی ملک گیر تنظیم پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن حرکت میں آ چکی تھی۔ وہاں سے ہمیں کنٹونمنٹ ہسپتال لے جایا گیا لیکن انہوں نے بھی ایک گھنٹے بعد پی ایم اے کے پریشر پر ہمیں نکال باہر کیا، یوں ہم زخمی ایک مرتبہ پھر پریس کلب لائے گئے۔
پیپلز پارٹی اپوزیشن میں تھی سو بے نظیر بھٹو کی ہدایت پر ان کی پولیٹیکل سیکرٹری ناہید خان پریس کلب ہماری عیادت کو پہنچیں اوراپنے خرچ پر ہمیں ایک نجی ہسپتال داخل کروا دیا۔
اگلی صبح یہ واقعہ تمام اخبارات کی شہ سرخیوں میں تھا سو سیاسی نمائشی عیادت کرنے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ایکشن لیا اور ہماری جانب سے ڈاکٹرز اور ان کی جانب سے ہم پر ایف آئی آر درج ہو گئی۔
ہسپتال میں کئی وفاقی وزرا سمیت مختلف سماجی تنظیموں کے عہدیدار ہماری عیادت کو آتے رہے اور اپنی تصویریں اخبارات میں شائع کرواتے رہے۔
پریس کلب کے صدر نواز رضا اور راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹ برنا اور دستور دونوں دھڑوں نے مل کر آزادی صحافت کی خوب تحریک چلائی اور روزانہ ڈاکٹرز کی گرفتاریوں کے لیے مری روڈ پر مظاہرے شروع کر دیے، جن میں سیاسی، سماجی و مذہبی تنظیمیں بھی شامل ہو گئیں۔ پی ایم اے کی کال پر ڈاکٹرز نے بھی چند روز ہسپتالوں میں ہڑتال کی اور مظاہرے کیے مگر صحافتی تنظیموں کی جانب سے اخبارات میں پی ایم اے کی جانب سے بھیجی کوئی بھی خبر شائع کرنے پر پابندی لگا دی گئی تھی اس لیے ڈاکٹرز کو اپنا نقطہ نظر بیان کرنے کے لیے مجبوراً پوسٹرز کا سہارا لینا پڑا جو جڑواں شہروں میں دیواروں پر چسپاں کیے گئے۔
پوسٹرز پر تحریر دو جملے واقعی دل کو چھو لینے والے تھے۔ پہلا، ’مریض کی تصویر بنانا ضروری ہے یا جان بچانا؟‘ اور دوسرا، ’خدا ان کو ایسی خدا ئی نہ دے کہ اپنے سوا کچھ دکھائی نہ دے۔‘
ایک ہفتہ بعد میں اور زلفی صحت یاب ہو کر ہسپتال سے ڈسچارج ہوئے اور اس دوران شاید بااثر حلقوں کی ہدایت پر پی ایم اے کے صحافتی تنظیموں کے ساتھ صلح کے لیے رابطے بھی شروع ہو چکے تھے۔
بالآخر چند دن بعد پریس کلب میں صلح کی تقریب منعقد ہوئی جس میں پی ایم کے عہدیداراور پریس کلب کے صدر نواز رضا اور یونین آف جرنلسٹ کے عہدیداران پرویز شوکت سمیت خاصی تعداد میں صحافی شریک ہوئے۔ ڈاکٹرز نے ہم سے معذرت کرلی۔ دونوں جانب سے ایف آئی آرز واپس لے لی گئیں اور یوں یہ قصہ تمام ہوا۔
محض دو سالہ صحافت کے بعد اس واقعے کے سبب ہماری اچھی خاصی شہرت ہو گئی تھی لیکن آج میں یہ سمجھتا ہوں کہ شہرت کے لیے وجہ شہرت کا اچھا ہونا زیادہ ضروری ہے۔
مثل مشہور ہے کہ ’اللہ ہسپتال اور کچہری جانے سے بچائے‘ ظاہر ہے کہ اس کی وجوہات ہیں۔
عدم برداشت کا رویہ ہمیں ہر جگہ اب بھی دکھائی دیتا ہے، اگرچہ اس کی بھی وجوہات ہیں۔ اگر ہر شخص اپنے فرائض کی انجام دہی احسن انداز میں کرنے کی محض کوشش ہی کر لے اور اس دوران اپنے دائرے میں رہے۔ دوسرے کے کام میں بے جا مداخلت نہ کرے تو پولیس، وکیل، صحافی یا دیگرافراد و ادارے باہمی چپقلش سے پیش آنے والے ایسے منفی واقعات سے بچا جا سکتا ہے۔
خاص طور پر فیلڈ میں کام کرنے کے دوران اگر ہم اپنے رویے اور زبان پر کنٹرول رکھیں تو مثبت اثرات سامنے آ سکتے ہیں کیونکہ دلیل کا خاتمہ گالی اور گالی کا آغاز تشدد کو جنم دیتا ہے۔
کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز کالمز‘‘ گروپ جوائن کریں