خصوصی عدالت کی جانب سے سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کو سزائے موت سنائے جانے کے فیصلے پر افواج پاکستان نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ فیصلے پر افواجِ پاکستان میں شدید غم و غصہ اور اضطراب ہے۔
منگل کو سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے منگل کو دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا تھا۔
اس فیصلے کے ردعمل میں افواج پاکستان کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور کی جانب سے جاری کی گئی پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف آرمی چیف، چئیر مین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور صدرِ پاکستان رہے ہیں اور انہوں نے 40 سال سے زیادہ پاکستان کی خدمت کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ پرویز مشرف نے ملک کے دفاع کے لیے جنگیں لڑی ہیں۔وہ کسی صورت غدار نہیں ہو سکتے۔
مزید پڑھیں
-
پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت کا حکمNode ID: 448711
-
آئین کا آرٹیکل چھ کیا ہے؟Node ID: 448726
-
پرویز مشرف کے پاس سزائے موت سے بچنے کا قانونی راستہ کیا ہے؟Node ID: 448736
آئی ایس پی آر کے بیان میں کہا گیا ہے کہ کیس میں آیئنی اور قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے اور خصوصی کورٹ کی تشکیل کے لیے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ دفاع کا بنیادی حق بھی نہیں دیا گیا اور عدالتی کارروائی شخصی بنیاد پر کی گئی۔بیان میں کہا گیا کہ کیس کو عجلت میں نمٹایا گیا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ افواجِ پاکستان توقع کرتی ہیں کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین پاکستان کے تحت انصاف دیا جائے گا۔
خصوصی عدالت کا فیصلہ
منگل کو ہی سابق فوجی صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے جنرل مشرف کو سزائے موت سنائی تھی۔
اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے منگل کو دو ایک کی اکثریت سے فیصلہ سنایا۔
جسٹس سیٹھ وقار احمد کی سربراہی میں تین رکنی خصوصی عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ سابق آرمی چیف پر آئین سے غداری کا جرم ثابت ہو گیا ہے۔
2013 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کے خلاف نومبر 2007 کو ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ اور ججوں کو نظر بند کرنے پر آرٹیکل 6 کے تحت غداری کی کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا گیا تھا۔

نومبر 2013 میں اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی حکومت نے سابق آرمی چیف پرویز مشرف کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔ فوٹو: اے ایف پی
آئین کا آرٹیکل چھ کیا ہے؟
آئین کا آرٹیکل چھ دستور توڑنے کو سنگین غداری قرار دیتا ہے۔
آرٹیکل چھ کی شق ایک کے مطابق ’کوئی بھی شخص جو بزور طاقت، یا بزعم طاقت یا کسی اور غیر آئینی طریقے سے آئین کو توڑے، اس کی توہین کرے، معطل کرے یا پھر عارضی طور پر ملتوی کرے یا پھر ایسا کرنے کی کوشش یا سازش کرے تو ایسا شخص آئین سے سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔‘
اسی آرٹیکل کی شق نمبر دو کے مطابق جو شخص بھی آئین توڑنے کے عمل میں مدد کرے یا اس پر ابھارے یا تعاون کرے تو وہ بھی سنگین غداری کا مرتکب ہو گا۔
اس آرٹیکل کی شق دو اے کے مطابق سپریم کورٹ، ہائی کورٹ اور کوئی اور عدالت اس سنگین غداری کے عمل کی توثیق نہیں کرے گی۔
اس آرٹیکل کی شق تین کے مطابق پارلیمنٹ قانون کے مطابق سنگین غداری کی سزا متعین کرے گی۔
’اس فیصلے سے مستقبل میں آئین توڑنے کی روایت ختم ہو گی‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں خصوصی عدالت کی جانب سے سزائے موت سنائے جانے کے بعد مختلف سیاسی پارٹیوں نے مختلف قسم کے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر صرف ایک جملہ لکھا ’جمہوریت بہترین انتقام ہے‘ اور اس کے ساتھ بے نظیر بھٹو کی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے تصویر بھی شیئر کی۔
پاکستان مسلم لیگ ن کے جنرل سیکریٹری احسن اقبال نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:’اس فیصلے سے مستقبل میں آئین توڑنے کی روایت ختم ہو گی۔ یہ وہ فیصلہ ہے جو آج سے پچاس سال قبل کیا جاتا تو مارشل لا کی لعنت اور نحوست مسلط نہ ہوتی، اور کبھی مشرقی پاکستان پاکستان سے جدا نہ ہوتا۔‘
’وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا فیصلہ آئے گا‘
سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے وکیل سلمان صفدر نے کہا ہے کہ پرویز مشرف کے خلاف ہونے والا فیصلہ بھٹو کے پھانسی کے فیصلے سے بھی برا ہے۔
سلمان صفدر نے کہا کہ فیصلہ عجلت میں کیا گیا، تمام قوانین کو نظرانداز کیا گیا، فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا۔
منگل کو اسلام آباد میں دیگر وکلا کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے سلمان صفدر نے کہا کہ افسوس کی بات ہے کہ 77 سال کے سابق صدر کا ٹرائل کیا گیا، فیصلہ سنا دیا گیا لیکن ان کو سنا تک نہیں گیا۔
انہوں نے کہا کہ ’قانونی تقاضے پورے نہیں کیے گئے، بے شمار غلطیاں کی گئیں۔ شریک ملزموں شوکت عزیز اور عبدالحمید ڈوگر کو شامل کیوں نہیں کیا گیا، ان کے خلاف بھی مقدمہ چلنا چاہیے تھا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ کابینہ کے بجائے صرف وزیر اعظم نے استغاثہ کے کیس کی منظوری دی تھی۔ ’کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا فیصلہ آئے گا۔‘
اس سوال پر کہ پرویز مشرف کا فیصلے پر کیا ردعمل ہے، سلمان صفدر نے کہا کہ وہ شدید بیمار ہیں اور انہیں فیصلے کا علم نہیں ہے۔
-
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں