وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے گذشتہ چند برسوں میں پاکستانی خواتین کے ساتھ جنسی زیادتی اور اعضا کی فروخت کے لیے زبردستی شادیوں کے الزام میں 50 چینی باشندوں کو گرفتار کیا ہے، تاہم اب تک چین سے صرف تین پاکستانی خواتین کو بحفاظت پاکستان واپس لایا جا سکا ہے۔
پاکستان کی وزارت داخلہ نے سینٹ کو ایک تحریری جواب میں بتایا ہے کہ ’ایف آئی اے کے مختلف دفاتر نے چینی باشندوں کی جعلی شادیوں کے پانچ مقدمات رجسٹر کیے ہیں۔‘
وزارت داخلہ کی دستاویزات کے مطابق جن تین پاکستانی خواتین کو چین میں شادی کے بعد واپس پاکستان لایا گیا ہے ان میں فیصل آباد کی نتاشہ مسیح، گوجرانولہ کی مہد لیاقت اور مقدس شامل ہیں۔
مزید پڑھیں
-
’جعلی شادیوں والے چینی وزٹ ویزے پر تھے‘Node ID: 418766
-
سمگلنگ کا خدشہ، چین نے 90 پاکستانی ’دلہنوں‘ کے ویزے روک دیےNode ID: 420026
دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے لاہور نے 11 چینی شہریوں کو پاکستانی لڑکیوں سے جنسی زیادتی اور اعضا کی فروخت کے لیے زبردستی شادی کے الزام میں آٹھ مئی 2019 کو گرفتار کیا۔ اس وقت تمام ملزمان جوڈیشل لاک اپ میں ہیں اور کیس زیرتفتیش ہے۔
اسی طرح دو مئی 2019 کو فیصل آباد میں ایف آئی اے کے دفتر نے 19 چینی باشندوں کو پاکستانی نوجوان لڑکیوں کی جنسی تجارت اور ان کے جسمانی اعضا کی فروخت کے لیے چین لے جانے کے الزام میں گرفتار کیا۔ ان میں سے 11 ملزمان اب بھی جوڈیشل تحویل میں ہیں اور کیس کی تفتیش جاری ہے۔
گذشتہ سال مئی میں ایف آئی اے اسلام آباد نے بھی 13 چینی باشندوں کو پاکستانی خواتین سے جعلی شادیوں کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ ان میں سے دو کو عدالت نے بری کر دیا، جبکہ 11 اس وقت ضمانت پر ہیں اور کیس کی تفتیش جاری ہے۔
گذشتہ برس مئی کی سات تاریخ کو چار چینی افراد کے خلاف جعلی شادیوں کا مقدمہ درج کیا گیا جن میں سے دو مفرور ہیں، جبکہ دو ابھی ضمانت پر ہیں اور کیس کی تفتیش جاری ہے۔
فیصل آباد میں گرفتاریوں کے بعد ایف آئی اے نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’جعلی شادیوں والا یہ گروہ گذشتہ کافی عرصے سے متحرک تھا اور ان کا زیادہ تر نشانہ مسیحی لڑکیاں تھیں۔ ان لڑکیوں کو جھانسہ دے کر ان سے شادی کی جاتی اور چین لے جا کر مبینہ طور پر جسم فروشی کروائی جاتی تھی۔
چینی باشندوں کی پاکستانی لڑکیوں کے ساتھ جعلی شادیوں کے واقعات سامنے آنے کے بعد اسلام آباد میں قائم چینی سفارت خانے نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ’چین شادی کروانے والے غیرقانونی مراکز کے خلاف کریک ڈاؤن میں پاکستانی قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کر رہا ہے۔ ہم چینی اور پاکستانی شہریوں کو محفوظ رہنے اور دھوکہ دہی کا شکار نہ ہونے کی یادہانی کرواتے ہیں۔‘
گذشتہ سال مئی میں اردو نیوز کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں اس وقت کے چینی ڈپٹی چیف آف مشن لی جیان ژاؤ نے بتایا تھا کہ ’چین کے شہریوں کی پاکستانی لڑکیوں سے شادیوں کی آڑ میں انسانی سمگلنگ کی شکایات کے بعد پاکستان میں چینی سفارت خانے نے 90 کے قریب نوبیاہتا پاکستانی ’دلہنوں‘ کے ویزے روک لیے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ 2018 کو 142 چینی باشندوں نے اپنی پاکستانی بیویوں کے لیے چینی سفارت خانے سے ویزے لیے تاہم سن 2019 کے پہلے چند ماہ میں ہی 140 کے قریب درخواستیں موصول ہونے پر چینی سفارت خانہ محتاط ہو گیا اور صرف 50 پاکستانی دلہنوں کو ویزے جاری کیے گئے اور باقی 90 کے ویزے روک دیے گئے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’چینی سفارت خانے نے اس کے ساتھ ہی پاکستانی حکام کو بھی الرٹ کر دیا جس کے بعد پاکستانی اداروں نے تحقیقات شروع کر دیں۔‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’تمام کیسز کی تفتیش چینی ادارے بھی کر رہے ہیں اورتحقیقات میں زبردستی جسم فروشی اور اعضا کی فروخت کا کوئی ثبوت نہیں ملا، انٹرنیٹ اور میڈیا پر اس سلسلے میں جھوٹ بولا جا رہا ہے۔‘
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں