عمران خان کے مطابق امریکی جنگ میں اتحادی بننے سے معیشت متاثر ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)
وزیراعظم پاکستان عمران خان نے کہا ہے کہ ’پاکستان کبھی کسی اور کی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا اور اگر کسی ملک سے شراکت کی تو جنگ کے لیے نہیں بلکہ امن کے لیے کریں گے۔‘
ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب کے دوران وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے یہ بھی کہا ہے کہ ’امن کے بغیر معیشت کو بہتر نہیں کیا جا سکتا، 1980 کی دہائی میں پاکستان افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف امریکہ کا اتحادی بنا۔ جب سوویت یونین ختم ہو گیا تو پاکستان کو دہشت گردوں کے رحم کو کرم پر چھوڑ دیا گیا جس سے ملک کی معیشت متاثر ہوئی۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ نائن الیون کے بعد پاکستان پھر امریکہ کا اتحادی بنا جس سے ملک میں دہشت گردی بڑھی اور 70 ہزار پاکستانی اس کی نذر ہو گئے۔ اس کے علاوہ معاشی نقصان بھی ہوا۔ ’اس لیے میں نے اور میری حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اب ہم کسی ملک کے اتحادی بنیں گے تو صرف امن کے لیے بنیں گے، جنگ کے لیے کسی سے شراکت نہیں کریں گے۔‘
عمران خان کے مطابق ’اس کے بعد سے ہم نے ایران اور سعودی عرب میں کشیدگی ختم کرنے کی کوشش کی۔ اب امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی کے خاتمے کے لیے پاکستان اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’اسی طرح پاکستان امریکہ کے ساتھ مل کر افغانستان میں امن کے قیام کے لیے بھی سہولت کار کا کردار ادا کر رہا ہے۔‘
امریکہ ایران کشیدگی کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عمران خان نے کہا کہ ’مجھے سمجھ نہیں آتی کہ ممالک جنگ سے مسائل کا حل کیوں نکالنا چاہتے ہیں۔ جنگ شروع ہو جاتی ہے لیکن پتا نہیں ہوتا کہ یہ کہاں ختم ہو گی۔‘
عمران خان کے مطابق اگر ایران اور امریکہ میں جنگ ہوتی ہے تو یہ نا صرف پاکستان بلکہ تمام ترقی یافتہ ممالک کے لیے تباہ کن ہو گی۔ ’میں نے صدر ٹرمپ کو بتایا ہے کہ امریکہ ایران جنگ پاکستان کے لیے تباہ کن ہو گی۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ ٹرمپ نے ان کی مذکورہ بات کا کیا جواب دیا تو عمران خان نے کہا کہ ’وہ خاموش رہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ میری بات سمجھ گئے ہیں کیونکہ جنگ تباہ کن ہو گی۔‘
اپنے خطاب کے دوران انہوں نے موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ ’ہماری ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کے قدرتی حسن کی حفاظت کی جائے۔ 2013 میں میری پارٹی نے صوبہ خبیر پختونخوا میں بلین ٹری سونامی منصوبہ شروع کیا اور تمام رکاوٹوں کے باوجود اسے کامیاب بنایا۔‘
’جب میں وزیراعظم بنا تو میں نے اگلے پانچ سال میں 10 ارب درخت لگانے کا ارادہ بنایا اور یہی اب ہمارا مقصد ہے، ہم نے بلین ٹری سونامی منصوبے سے جو سیکھا اس کو اب بروئے کار لائیں گے۔‘
’یہ تاریخ کی پہلی حکومت ہے جسے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے‘
ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب سے قبل عمران خان نے سوئٹزرلینڈ میں بین الاقوامی میڈیا کونسل سے بھی خطاب کیا جس کے دوران انہوں نے کہا کہ ’ان کی حکومت پاکستانی تاریخ کی پہلی حکومت ہے جسے فوج کی مکمل حمایت حاصل ہے۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ ’ماضی کی حکومتیں کرپشن کرتی تھیں تو فوج کے ان کے ساتھ تعلقات خراب ہو جاتے تھے۔‘
پاکستانی معیشت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’1960 کی دہائی میں پاکستان تیزی سے ترقی کرنے والے ایشیائی ممالک میں شامل تھا لیکن بعد میں کرپشن کی وجہ سے ملک غربت کی طرف بڑھتا گیا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ماضی میں حکمرانوں نے پیسے بنانے اور پھر انہیں ملک سے باہر بھیجنے کے لیے ریاستی اداروں کو تباہ کیا۔ اب ہم صحیح سمت میں جا رہے ہیں اور ملک کی معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ ہماری حکومت کو عسکری سمیت تمام اداروں کی حمایت حاصل ہے۔‘
عمران خان نے یہ بھی کہا کہ ’ماضی میں پاکستان کی معیشت کو مصنوعی طریقے سے کنٹرول کیا گیا لیکن رواں سال کے دوران ملک کی سٹاک مارکیٹ میں بہتری آئی ہے۔‘
ان کے بقول ’ہماری حکومت نے پہلے سال میں معیشت کو مستحکم کیا ہے اور تجارتی خسارے میں کمی لائی ہے۔‘
انڈیا کے موجودہ حالات اور مسئلہ کشمیر پر بات کرتے ہوئے پاکستانی وزیر اعظم نے کہا کہ ’مودی حکومت نازی طرز پر آر ایس ایس کے نظریے پر عمل پیرا ہے اور انڈیا کے اندر شہریت کے نئے قانون سے حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔‘
انہوں نے انڈیا کے اندورنی حالات پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’انڈیا کو مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا، میری وہاں پر دوستیاں ہیں، میں نے وہاں کرکٹ کھیلی ہے لیکن انڈیا میں جو ہو رہا ہے وہ انڈیا اور وہاں رہنے والے لوگوں کے لیے تباہی ہے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’انڈیا ایک بڑی مارکیٹ ہے لہٰذا ہر ملک اس کے ساتھ اچھے تعلقات بنانا چاہتا ہے لیکن انڈیا جس رستے پر چل پڑا ہے وہ تشویش ناک ہے۔‘
عمران خان نے مزید کہا کہ ’انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد سب سے پہلے نریندر مودی سے رابطہ کیا لیکن انہوں نے پاکستان کی پیش کش کا کوئی مثبت جواب نہیں دیا۔ پلوامہ حملے کے بعد دونوں ممالک میں کشیدگی بڑھی اور پاکستان نے انڈین جارحیت کا بھرپور جواب دیا۔ مودی حکومت نے 80 لاکھ کشمیریوں کو کئی ماہ سے گھروں میں محصور کر رکھا ہے۔‘
وزیراعظم عمران خان نے ایک بار پھر زور دیا کہ کشمیر پاکستان اور انڈیا کے درمیان متنازع علاقہ ہے اور مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل ہونا چاہیے۔
اس موقعے پر افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان افغانستان کی صورت حال سے متاثر ہو رہا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے سرحدی علاقے متاثر ہوئے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’میں نے ہمیشہ طاقت کے استعمال کی مخالفت کی اور میرے موقف کی وجہ سے مجھے طالبان کا حامی بھی کہا گیا۔‘