Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’وائرس کے باعث کمرے تک محدود تاہم معاملات بہتر ہوئے‘

عالمی ادارہ صحت نے کرونا وائرس کو سنگین درجے کی وبا قرار دیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
کورونا وائرس کے بعد چین میں موجود پاکستانیوں بالخصوص طلبہ کے والدین وبا سے متعلق خبروں پر تشویش کا شکار ضرور ہیں تاہم مقامی سطح پر اٹھائے جانے والے اقدامات سے مطمئن بھی نظر آتے ہیں۔
گزشتہ چند ہفتوں کے دوران تیزی سے پھیلنے والے کورونا وائرس کی وجہ سے چین کے متعدد شہروں میں داخلہ بند اور نقل و حرکت محدود کر دی گئی ہے۔
اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے وائرس سے متاثرہ شہر ووہان میں زیرتعلیم ایک پاکستانی طالب علم عبدالرحمان کے والد محمد اکبر خان کا کہنا تھا کہ چینی حکومت کی جانب سے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں وہ ان سے مطمئن ہیں۔ معلومات کا اکلوتا ذریعہ بیٹے کے پاس موجود فون ہی ہے۔
 
انہوں نے کہا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا بیان نظر سے گزرا تھا جس میں انہوں نے بیجنگ کے پاکستانی سفارت خانے کے جاری کردہ نمبر کا ذکر کیا تھا تاہم اس کے استعمال کی نوبت نہیں آئی۔
وبا کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے ذریعے اس پر قابو پانے کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ لاکھوں افراد کو متاثر کرنے والا کورونا وائرس ختم ہونے میں مہینوں لے گا۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ماہرین نے کورونا وائرس کے خاتمے کی پیشگوئی اب تک دستیاب ہونے والے ڈیٹا کی بنیاد پر کی ہے۔
منگل کے روز کورونا وائرس سے بیجنگ میں پہلی موت کی تصدیق کرتے ہوئے چینی حکام نے بتایا تھا کہ اب تک وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد 4500 سے زائد ہو چکی ہے۔ کورونا وائرس سے اب تک 106 اموات ہو چکی ہیں۔
چین میں موجود پاکستانی طلبہ و طالبات اور شہریوں کے لیے نیک خواہشات ظاہر کرتے ہوئے محمد اکبر خان نے خواہش ظاہر کی کہ پاکستانی حکام بھی چینی حکام کی طرح مزید فعالیت کا مظاہرہ کریں تو صورت حال مزید بہتر ہو سکتی ہے۔
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد مختلف ممالک اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنے کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ پاکستانی حکام کی جانب سے بھی متعدد اعلانات سامنے آئے ہیں۔
منگل کو وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کا ایک بیان بھی سامنے آیا جس میں انہوں نے چین میں مقیم پاکستانی شہریوں سے کہا کہ وہ گھبراہٹ کا شکار نہ ہوں، چین میں کوئی پاکستانی کورونا وائرس سے متاثر نہیں ہوا۔ چین میں موجود غیر رجسٹرڈ پاکستانی طالب علم سفارت خانے میں اپنے کوائف کا اندراج یقینی بنائیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ووہان کی ایک یونیورسٹی کے طالبِ علم عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ ابتدائی پریشانی میں کچھ افراد نے آدھی ادھوری معلومات شیئر کیں جن سے خوف و ہراس کی فضا قائم ہوئی، تاہم مقامی حکام خاطر خواہ اقدامات کر رہے ہیں جس کے بعد تشویش نہیں رہی۔
عبدالرحمان کے مطابق وہ کورونا وائرس سے پیدا شدہ صورتحال کے باعث کمرے تک محدود ہیں لیکن غذا کی دستیابی، سکریننگ اور دیگر معاملات بہتر ہوئے ہیں۔ صورت حال کے بہتر ہونے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجھے اگر پاکستان واپس جانے کا آپشن دیا جائے تو میں یہیں رکنے کو ترجیح دوں گا۔

کورونا وائرس کے خلاف اقدمات کو تقویت بخشنے کے لیے چینی وزیراعظم نے متاثرہ علاقے کا دورہ کیا۔ فوٹو: اے ایف پی

قبل ازیں چین میں پاکستانی سفارت خانے نے طلبا اور دیگر پاکستانی شہریوں کو ہدایت کی تھی کہ تازہ ترین معلومات کے لیے بیجنگ کے پاکستانی سفارت خانے کی ویب سائٹ وزٹ کرتے رہیں۔
چین میں پاکستانی سفارتخانے میں کمیونیٹی اینڈ ویلفیئر کے شعبے سے منسلک محمد اکرم نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا تھا کہ انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر نمبر جاری کردیے ہیں۔ ’کسی کو کوئی مسئلہ ہو تو بتائیں۔‘
دوسری جانب پاکستان میں چینی سفارت خانے کا ایک وڈیو پیغام سامنے آیا تھا جس میں چینی سفیر نے بتایا تھا کہ ان کے ملک میں مقیم 500 پاکستانی طلبہ اور شہری خیریت سے ہیں۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی چین میں مقیم پاکستانی طلبہ کی ایک وڈیو زیرگردش ہے جس میں وہ کورونا وائرس کے بعد کی صورت حال کا ذکر کرتے ہوئے خود کو درپیش مشکلات کا ذکر کرتے دیکھے جا سکتے ہیں۔
پاکستانی دفتر خارجہ کے مطابق چین میں 28 ہزار پاکستانی طلبہ زیر تعلیم ہیں۔ 800 تاجر چین میں رہائش پذیر ہیں جب کہ ایک ہزار پانچ سو وہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ صرف ووہان میں 500 کے قریب پاکستانی رہائش پذیر ہیں۔
کرونا سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبے ہوبائی اور صوبے کے مرکزی شہر ووہان میں چینی حکومت کی جانب سے متعدد اقدامات کیے گئے ہیں۔ چینی وزارت خارجہ کے انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر لیجان ژاؤ نے ایک ٹویٹ میں اطلاع دی تھی کہ ووہان میں ہزار بستروں کا ہسپتال قائم کیا جا رہا ہے، جو 9 دنوں میں مکمل کیا جانا ہے۔

کورونا وائرس کیا ہے؟

ماہرین کے مطابق وائرس کا سبب بننے والا پیتھوجن بالکل نیا ہے اور یہ کورونا وائرس کی ایک قسم ہے۔ کورونا، وائرسز کی وہ فیملی ہے جس میں عام بخار کا سبب بننے والے وائرس سے لے کر ریسپائریٹری سینڈروم (سارس) شامل ہے جس سے 2002 اور 2003 کے دوران چین میں 349 اور ہانگ کانگ میں 299 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
اس وائرس کو’2019-nCoV  ‘کا نام دیا گیا ہے۔ وائرس سے متاثر اکثر مریض فلو کی طرح کی علامات بشمول بخار، کھانسی، گلے کی خراش اور سانس لینے میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔

کرونا وائرس کہاں سے آیا؟

جینیاتی تجزیے کے مطابق وائرس کی افزائش چمگادڑوں میں ہوئی لیکن محققین کے مطابق اس کی انسانوں میں منتقلی میں کسی دوسرے جانور کا کردار بھی ہو سکتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق وائرس کی انسانوں میں منتقلی سانپ کے ذریعے ہوئی۔
چین کے ’ڈیزیز کنٹرول اور پریونشن سینٹر‘ کے ڈائریکٹر گاؤ فو کا کہنا ہے کہ ’وائرس ووہان میں قائم سمندری خوراک کی ایک مارکیٹ میں جنگلی جانوروں سے پھیلا۔‘ مذکورہ مارکیٹ میں مختلف قسم کے جنگلی جانور لومڑی، مگرمچھ، بھیڑیے اور سانپ وغیرہ فروخت کیے جاتے تھے۔ اس مارکیٹ کو اب بند کر دیا گیا ہے۔

شیئر: