سندھ کے شہر لاڑکانہ سے 30 کلومیٹر دور، انسانی تاریخ کےعظیم ورثے موئن جو دڑو کے عقب میں دو ہزار کی آبادی والا گاؤں بھلڑیجی آباد ہے جہاں کی شرح خواندگی پورے صوبے سے زیادہ ہے۔
اس گاؤں نے بہت سارے پی ایچ ڈیز، میڈیکل ڈاکٹرز اور مصنف پیدا کیے ہیں۔
1960 کی دہائی میں جب موئن جو دڑو کی کھدائی کے لیے غیر ملکی محققین پاکستان آئے ہوئے تھے اس وقت بھلڑیجی کا ایک میٹرک پاس نوجوان انور پیرزادو ان کے ساتھ کام میں شامل ہوگیا۔
بھلڑیجی کے بہت سے لوگ کھدائی میں شامل تھے مگر یہ نوجوان چونکہ پڑھا لکھا تھا اور اس کو مصوری آتی تھی، لہٰذا محققین نے اسے دریافت ہونے والی اشیاء کے سکیچ بنانے کے کام پر مامور کر دیا۔
غیر ملکی سکالرز کے ساتھ کام کر کے اس نوجوان کو مزید تعلیم حاصل کرنے اور اپنے گاؤں میں تعلیم عام کرنے کا خیال آیا۔ انور پیرزادو نے انگلش میں ماسٹرز کیا اور پاکستان ائیر فورس میں بطور پائلٹ آفیسر شمولیت اختیار کر لی۔
1971 کی جنگ کے بعد وہ گاؤں واپس آگئے اور شعبہ تعلیم و صحافت سے منسلک ہو گئے۔ وہ ملک کے معروف انگریزی اخبار ڈان کے ساتھ منسلک رہے اور متعدد کتابیں بھی تصنیف کیں۔
انور پیرزادو نے اپنی زندگی میں جو کچھ بھی کیا، اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے گاؤں میں تعلیم کے فروغ کے لیئے کوشاں رہے۔
بھلڑیجی کے لوگ بتاتے ہیں کہ انور پیرزادو کی کوششوں کی وجہ سے ان کے چھوٹے سے گاؤں سے 1980 کی دہائی میں ایک خاتون ڈاکٹر بن گئیں اور پھر ان کے دیکھا دیکھی ہر کوئی اعلی تعلیم حاصل کرنے لگا۔
انور پیرزادو نے لوگوں میں تعلیم کا اتنا شعور پیدا کر دیا کہ یہاں سے لاتعداد مصنف اور پی ایچ ڈی سکالرز نکلے۔
روس سے ایم فل کرنے والے بھلڑیجی کے رہائشی ریاض پیرزادو کا کہنا ہے کہ انور پیرزادو اس گاؤں کے پیشوا ہیں اور ان سمیت کئی نوجوان ان کو اپنا استاد مانتے ہیں۔
بھلڑیجی میں چار ہائی سکول اور چھ پرائمری سکول، ہیلتھ کیئر سینٹر، لائبریری، کمپیوٹر سینٹر اور میڈیکل لیبارٹری بھی ہے جو یہاں کے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت بیرون ملک مقیم افراد کے مالی تعاون سے قائم کی ہیں۔
سیاسی اعتبار سے بھلڑیجی بائیں بازو کی انقلابی سیاست کے لیے منفرد پہچان رکھتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے گڑھ لاڑکانہ سے محض چند کلومیٹر دور یہ چھوٹا سا گاؤں اپنی سیاسی انفرادیت کے لیے صوبے بھر میں مشہور ہے۔
پیرزادو خاندان کے لوگ شروع سے ہی بائیں بازو کی سیاست کرتے ہیں اور اس علاقے کی بلدیاتی نمائندگی دہائیوں سے انہی کے پاس ہے۔
مجیب پیرزادو سیاسی لحاظ سے بھلڑیجی کی معروف شخصیت ہیں اور اس گاؤں میں کمیونسٹ پارٹی پاکستان اور دیگر پارٹیوں کے رہنماؤں کی مہمان نوازی کا شرف رکھتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ بائیں بازو کی سیاست اقتدار کے لیے نہیں بلکہ عام عوام کے مسائل کے حل اور شعور بیدار کرنے کے لیے کی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اس گاؤں کے افراد نے کبھی قومی و صوبائی اسمبلی کی نشستوں کے لیے الیکشن نہیں لڑا۔
اس گاؤں کے لوگوں کے کمیونسٹنظریات کی وجہ سے اس کو 'لٹل ماسکو' بھی کہا جاتا ہے۔
اس حوالے سے مجیب نے بتایا کہ ضیاء الحق کی جانب سے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جب بائیں بازو کی سیاست کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا تھا تو اس وقت بھلڑیجی میں انقلابی سیاست پروان چڑھ رہی تھی۔
’یہاں بائیں بازو کے سیاسی افکار زبان زدِ عام تھے اور ہر شخص انقلابی سیاست کا پرچار کرتا تھا تب ہی ہمارے حریفوں نے، جس میں جماعت اسلامی پیش پیش ہے، ہم پر ماسکو سے روابط رکھنے کا بیان داغا اور بھلڑیجی کے حوالے سے کہا کہ یہ تو چھوٹا ماسکو ہی بن گیا ہے۔ تب سے ہی یہ گاؤں'لٹل ماسکو' کے نام سے مشہور ہے۔‘
دریائے سندھ کے کنارے واقع بھلڑیجی کے لوگوں کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔ یہاں کے باسی مٹی اور وطن سے محبت کو اپنا تمغہ گردانتے ہیں اور بڑے فخر سے بتاتے ہیں کہ اس گاؤں سے جتنے بھی لوگ پڑھائی اور نوکری کی غرض سے بیرون ملک یا دوسرے شہروں کو گئے ان کا تعلق اپنے گاؤں سے قائم رہا اور وہ لوٹ کر یہیں آئے۔