Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

موئن جو دڑو کی زبان کیا تھی؟

سندھو تہذیب کے قدیم ترین شہر موئن جو دڑو کی دریافت کو 100 سال ہوگئے مگر آج بھی دنیا بھر کے محقق اس قدیم شہر کی بول چال سمجھنے میں ناکام رہے ہیں۔
حکومت سندھ کے زیرِ انتظام سندھو تہذیب کے رسم الخط 'انڈس سکرپٹ' کی ضابطہ کشائی کے لیے موئن جودڑو کے آثارِ قدیمہ سے متصل میوزیم میں عالمی کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں فرانس، امریکہ، جاپان، جرمنی، اٹلی، ڈنمارک اور دیگر ممالک کے ماہرین آثار قدیمہ شرکت کر رہے ہیں۔
 موئن جو دڑو کی تاریخ ساڑھے چار ہزار سال پرانی ہے اور یہ آبادی وادی سندھ کی تہذیب کی سب سے پرانی نشانی ہے، یہ شہر قریباً تین ہزار سات سو سال تک زمین میں دفن رہا اور بالآخر 1920 میں اس کا سراغ لگایا گیا۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے عہدیدار آر ڈی بینرجی نے 1920 میں یہ ٹیلہ دریافت کیا، ان کا اولین گمان تھا کہ یہ بدھ مت کا سٹوپا ہے۔ بعد ازاں آرکیولاجیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ سر جان مارشل کی سربراہی میں آثار قدیمہ کی کھدائی کا کام ہوا اسی بنا پر اس شہر کی دریافت ان سے منسوب ہے۔
ہزاروں سال پرانے اس شہر کی پراسرار زبان کی گتھی سلجھانے کے لیے تین روزہ موئن جودڑو عالمی کانفرنس کا انعقاد محکمہ نوادرات سندھ اور نیشنل فنڈ فار موئن جو دڑو کے اشتراک سے کیا جا رہا ہے۔ کانفرنس میں جاپان سے آئے ڈاکٹر ایومو کوناسوکاوا، جرمنی سے ڈاکٹر آندریاس فولس اور ڈاکٹر مائیکل جانسین، ڈنمارک سے ڈاکٹر سٹیفن ٹریپ لارسن اور ڈاکٹر صدف مرزا، اٹلی سے ڈاکٹر ڈینز فرینز، امریکہ سے ڈاکٹر گریگ جیسمن اور ڈاکٹر جوناتھن مارک کینائر اور فرانس سے آئے ڈاکٹر سٹیفن ڈیوڈوئگنن تحقیقی مقالے پیش کریں گے۔

سر جون مارشل کی سربراہی میں موئن جو دڑو کے آثار کی کھدائی کے کام کا آغاز ہوا

اٹلی سے آئے محقق اور ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر ڈینز فرینز نے اردو نیوز کو بتایا کہ موئن جو دڑو سے ملنے والی مہروں اور ٹیبلیٹ دیگر تمام تہذیبوں سے یکسر مختلف ہیں جس وجہ سے ان کو سمجھنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ ’موئن جو دڑو سے ملنے والے نقوش منفرد اور خود ساختہ ہیں اور بعد میں آنے والی تہذیبوں میں ان کا تسلسل نہیں ملتا۔ کھدائی کے دوران ملنے والی اشیاء سے یہی لگتا ہے یہاں کے لوگ تفصیلی لکھت پڑھت کے قائل نہیں تھے اور مختصر ترین اشاروں میں پیغام رسانی کرتے تھے۔‘
ڈاکٹر ڈینز کا کہنا تھا کہ ’ایسا تو ممکن نہیں کہ اس کانفرنس میں تمام محقق رسم الخط کے حوالے سے متفق ہوجائیں تاہم آئندہ کی تحقیق کے لیے ضابطے کا تعین ہو جائے گا اور اس پراسرار اور منفرد زبان کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔‘ انہوں نے بتایا کہ ’ابھی یہ واضح نہیں کہ زبان کے استعمال کی جو علامتیں موئن جودڑو سے ملی ہیں وہ مکمل ہیں یا نہیں۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ یہاں کے لوگ کسی ایسی چیز پر خط وکتابت کرتے ہوں جو وقت ساتھ فنا ہوگئی، جیسے درختوں کی چھال، جانوروں کی کھال وغیرہ۔‘

آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے عہدیدار آر ڈی بینرجی کا اولین گمان تھا کہ یہ بدھ مت کا سٹوپہ ہے

امریکہ سے آئے آثار قدیمہ کے ماہر ڈاکٹر جانتھن مارک کینائر نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’سندھو تہذیب کی درجہ بندی کی ضرورت ہے کیوں کہ مختلف ادوار اور ریجنز میں مختلف زبانیں رائج رہی ہیں، موئن جو دڑو میں رائج انڈس سکرپٹ دراصل ان زبانوں کی علامتی نشان بندی ہے۔‘
’انڈس سکرپٹ ایک ورسٹائل سکرپٹ ہے جو معاشرے کے تمام پہلوؤں میں رائج تھا۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ زبان اشرافیہ کے زیرِ استعمال تھی تبھی کچھ گھروں سے تو علامتی نشان بہتات میں ملتے ہیں لیکن متعدد گھروں سے ایک بھی نہیں ملتا۔ اشرافیہ زبان کو اپنے قابو میں رکھتی تھی جس سے اسے طاقت کے استعمال میں آسانی ملتی تھی، اسی وجہ سے زبان ختم بھی ہوئی کیوں کہ عام عوام تک اس کی رسائی نہ تھی۔‘
ڈاکٹر جانتھن مارک کینائر کے مطابق ’انڈس سکرپٹ درحقیقت زبان کی علامت ہے اور یہ زبانیں ایک سے زائد ادوار اور علاقوں کی ہو سکتی ہیں جسے گریٹر انڈس ریجن کہا جاتا ہے۔ ان زبانوں میں دوڑاوڑ، آسٹرو ایشیاٹک (مندہری)، سائنو تبتین، انڈو آرین، اور کچھ نا معلوم زبانیں شامل ہیں۔

ماہرین کے مطابق ممکن ہے کہ یہاں کے لوگ کسی ایسی چیز پر خط وکتابت کرتے ہوں جو وقت کے ساتھ فنا ہو گئی

موئن جودڑو میں استعمال ہونے والی زبان کی علامتوں یا رسم الخط کے حوالے سے مختلف محققین کا الگ الگ تجزیہ ہے، کچھ کے نزدیک علامتوں کی تعداد محض 400 ہے جبکہ کچھ یہ تعداد دو ہزار بتاتے ہیں۔ جرمن محقق ڈاکٹر اینڈریاس فلوز کا دعویٰ ہے کے ان علامتوں کی تعداد 17 ہزار ہے اور ان کا ڈیٹا ان کے پاس محفوظ ہے۔
کانفرنس میں پاکستانی سکالرز ڈاکٹر فرزند مسیح، ڈاکٹر ساجد حسین خان، ڈاکٹر ندیم شفیق ملک، ڈاکٹر اسمہ ابراہیم، ڈاکٹر قاصد ملاح بھی شریک ہیں۔
موہین جو دڑو سکرپٹ پر تحقیق کرنے والے سینئر سکالر فن لینڈ کے ڈاکٹر آسکو پرپولا کا ریسرچ پیپر ڈاکٹر گریگ  کانفرنس میں پڑھ کے سنائیں گے. علاوہ ازیں، کانفرنس میں شرکت نہ کرنے والے ڈاکٹر برائن ویلز، ماسیمو ودالے، انڈیا سے ڈاکٹر ایم این ویہیا، ڈاکٹر راجیش پی این راؤ، نشا یادیو اور ڈاکٹر پی کے چودھری کے تحقیقاتی مقالے بھی کانفرنس میں پڑھے جائیں گے۔
سہہ روزہ کانفرنس کا افتتاح کرتے ہوئے سیکرٹری ثقافت غلام اکبر لغاری نے بتایا کہ پہلے دو روز تکنیکی نشستیں ہوں گی جن میں ماہرین سندھو تہذیب خاص طور پر موئن جو دڑو سے ملنے والی مہروں اور دیگر نوادرات پر نقش رسم الخط کےحوالے سے دقیق نکات کو سمجھنے کی کوشش کریں گے، جبکہ تیسرے دن اختتامی سیشن میں تمام ٹیکنیکل سیشنز میں کی گئی پیش رفت سے عوام کو آگاہ کیا جائے گا۔

'یہ مُردوں کا ٹیلہ نہیں'

سندھو تہذیب کے اس قدیم ترین شہر کے نام کے حوالے سے بھی تضاد موجود ہے۔ اس آثارِ قدیمہ کو دریافت کرنے والے سر جان مارشل نے اپنی کتاب میں اس کو موھین/موہن جو دڑو (موہن کا ٹیلہ) لکھا ہے، اور موہن ہندو مت کے بھگوان کرشنا کا بھی نام ہے۔ تاہم وقت کے ساتھ شہر کا نام بگڑ کر موئن جو دڑو ہو گیا جس کے معانی ’مُردوں کے ٹیلے‘ کے ہیں۔
سندھ کے وزیرِ ثقافت سید سردار علی شاہ کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ’سندھ کی تہذیب و تاریخ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس کو روکنے کے لیے صوبائی اسمبلی میں قرارداد پیش کی جائے گی جس میں اس شہر کا نام اصل حالت میں بحال کرنے کی استدعا کی جائے گی۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’سندھی دنیا کی سب سے پرامن تہذیب کے وارث ہیں، سندھو تہذیب کے قدیم ترین شہر سے کوئی ہتھیار نہیں ملا۔

شیئر: