Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اترپردیش میں 20 برس کی تلاش کے بعد سونے کا ذخیرہ دریافت

جی ایس آئی نے 2005 میں کہا تھا کہ سون بھدر کے علاقے میں سونے کے ذخائر ہیں (فوٹو:انڈین ٹی وی)
انڈیا میں ان دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے مختلف قسم کی خبریں شہ سرخیوں میں ہیں لیکن بعض ایسی خبریں بھی ہیں جو مین سٹریم میڈیا میں جگہ نہیں بنا سکیں۔ آئیے ایسی ہی چند خبروں پر نظر ڈالتے ہیں:

اتر پردیش کا پوشیدہ خزانہ

اگر ماہر ارضیات کے دعوے کو تسلیم کیا جائے تو اترپردیش حکومت کی بڑی لاٹری لگی ہے کیونکہ مشرقی اترپردیش کے سون بھدر ضلعے میں انہیں سونے کے بڑے خزانے کا پتا چلا ہے۔ جیولوجیکل سروے آف انڈیا (جی ایس آئی) اور اترپردیش کے جیولوجی اور مائننگ کے محکمے نے کہا ہے کہ قریباً 20 برسوں کی تلاش اور محنت کے بعد انہیں اس خزانے کا پتا چلا ہے۔

 

تخمینے کے مطابق نکسلی علاقے سون بھدر میں دو سونے کی کانیں ملی ہیں جن میں قریباً 3350 ٹن سونا ہے۔ یہ مقدار پورے ملک میں موجود سونے کے خزانے کا پانچ گنا ہے کیونکہ ملکی ذخیرے میں ابھی قریباً 626 ٹن سونا موجود ہے۔
فنانشل ایکسپریس میں شائع خبر کے مطابق ضلعے میں محکمہ کان کنی کے افسر کے کے رائے نے کہا ہے کہ حکومت اس ذخیرے کو لیز پر دینا چاہ رہی ہے۔ پہلی بار جی ایس آئی نے 2005 میں کہا تھا کہ سون بھدر کے علاقے میں سونے کے ذخائر ہیں۔ اس کے بعد 2012 میں اس کی تصدیق ہوئی کہ سون بھدر کی پہاڑیوں میں یہ سونا دفن ہے۔
حکام کے مطابق جلد ہی اس علاقے میں کان کنی کے لیے بولی لگائی جائے گی۔ 

غربت کا مارا شخص

ایک طرف اگر زمین کے سونا اگلنے کی خبر ہے تو دوسری جانب سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک معمر شخص روٹی کو پانی میں بھگو کر کھاتے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس ویڈیو نے لوگوں کو بہت متاثر کیا ہے خاص طور پر یہ احساس دلایا ہے کہ بھوک کیسی چیز ہوتی ہے۔ لوگ کہہ رہے ہیں کہ جب پیٹ بھرا ہوتا ہے تو لوگ کھانا ضائع کرتے ہیں اور جب پیٹ خالی ہوتا ہے تو لوگ روٹیاں بھگو کر کھانے پر مجبور ہو جاتے ہیں.
اس ویڈیو کو دیکھنے کے بعد عام طور پر لوگوں نے کھانا ضائع نہ کرنے کی بات کہی ہے۔ سچن کوشک نامی ایک صارف نے 20 سیکنڈ کی یہ ویڈیو اپ لوڈ کی ہے اور لکھا ہے کہ 'یہ بھوک ہی ہوتی ہے جو کسی سے پیٹ بھرنے پر روٹی پھینکوا دیتی ہے اور کسی سے اسی روٹی کو دوبارہ اٹھوا کر بھگوا لیتی ہے۔ دلدوز ویڈیو۔'

بارہ سنگھا دریا میں گِر گیا

انڈیا میں ان دنوں 27 سیکنڈ کی ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک بارہ سنگھے کو بچاتے دکھایا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر لوگ اس کوشش کی بہت تعریف کر رہے ہیں۔
محکمۂ جنگلات کے افسر سوسنتا نندا اکثر جانوروں کی حوصلہ افزا تصاویر ڈالتے ہیں۔ انھوں نے بارہ سنگھے کو بچانے والی ویڈیو کو شیئر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’مضبوط لوگ کسی کو دھکا نہیں دیتے بلکہ انہیں اوپر اٹھاتے ہیں۔

یہ ویڈیو کہاں کی ہے یہ تو معلوم نہیں لیکن اس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سائیکل سواروں کے ایک گروپ نے کس طرح بارہ سنگھے کو بچایا ہے۔
لوگوں نے اس کی بہت تعریف کی ہے۔ کسی نے اسے ’شاندار‘ کہا ہے تو کسی نے لکھا ہے کہ ’اسے کہتے ہیں بغیر کسی امید کے مدد کرنا۔‘ یہ انسانوں کے اندر رحم دلی کے جذبے کی عکاس ہے۔

دلت نوجوانوں پر شرمناک تشدد

لیکن تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جو انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان میں رونما ہوئی اور اس طرح کے غیر انسانی سلوک بارہا خبروں میں نظر آتے ہیں۔
راجستھان میں ناگور ضلعے کے کرنو گاؤں میں پسماندہ ذات یعنی دلت طبقے سے تعلق رکھنے والے دو نوجوانوں کو چوری کے الزام پر بے رحمی سے مارا پیٹا گیا اور ان کی شرم گاہوں میں پیٹرول ڈال کر ویڈیو بھی بنائی گئی۔

اس واقعے کے چار دن بعد جب ویڈیو وائرل ہوئی تو دلت سماج کے لوگوں نے ضلعے میں بڑا مظاہرہ کیا اور پھر پولیس حرکت میں آئی۔
اس میں سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ ویڈیو میں کئی ملزمان کو ان دلت نوجوانوں کی تکلیف پر مسکراتے دیکھا جا سکتا ہے۔
پولیس کے مطابق اس سلسلے میں سات افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور متاثرہ نوجوانوں ویسا رام اور ان کے چچا زاد بھائی پنا رام کا میڈیکل ٹیسٹ کروا لیا گیا ہے۔ اس کے باوجود یہ واقعہ سماج کے پسماندہ طبقے سے متعلق معاشرے میں جاری بے حسی اور غیر انسانی سلوک کا مظہر ہے۔
کانگریس کے سابق صدر راہل گاندھی نے اس ویڈیو کو خوفناک اور بیمار کن قرار دیا ہے اور حکومت راجستھان سے ذمہ دار افراد کے خلاف فوری کارروائی کرنے کی بات کہی ہے۔
فرید علی نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’انسانیت دم توڑ رہی ہے۔ ملک پر حکومت کرنے والے ذمہ دار لوگ جب ہر روز نفرت کی آگ اُگلیں گے تو ملک کہاں جائے گا۔ ان حیوانوں کی فوراً سخت سزا ملنی چاہیے۔'

 

شیئر: