Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغان امن معاہدہ پاکستان کے لیے کیا امکانات لا رہا ہے؟

پاکستان کو امید ہے کہ افغانستان میں امن سے سی پیک منصوبہ مزید موثر ہوگا (فوٹو: اے ایف پی)
امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ایک ہفتے کی سیز فائر کے بعد 29 فروری کو امن معاہدے پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔ اگر ایسا ہو گیا تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہوگی جس کے اثرات پاکستان سمیت پورے خطے پر مرتب ہوں گے۔
افغان امن معاہدہ پاکستان کے لیے متعدد امکانات کے دروازے کھولنے جا رہا ہے جس میں اندرونی استحکام، وسطی ایشا کے ساتھ بلا روک ٹوک تجارت اور سرمایہ کاری کا فروغ شامل ہیں۔ پاکستان کو امید ہے کہ افغانستان میں قیام امن کے بعد سی پیک منصوبے کو مزید موثر اور مفید بنایا جاسکے گا۔
پاکستان کے سابق نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر  لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) ناصر جنجوعہ کے مطابق افغان امن معاہدہ ہونے کے بعد اگلے چند روز بہت اہم ہوں گے۔ اُن کے مطابق اس معاہدے کے مستقبل کے حوالے سے ابھی حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جا سکتا کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حوالے سے کوئی حتمی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔
پاکستان کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا ملک ہمیشہ سے ہی خطے میں امن کا خواہاں رہا ہے اور یہ پاکستان ہی تھا جو امریکہ اور افغانستان کو مذاکرت کی میز تک لایا۔ جبکہ اس کے برعکس انڈیا طالبان سے مذاکرات کے حق میں نہیں رہا۔ اُس (انڈیا) کے مطابق افغانستان کے مسئلے کا واحد حل جنگ ہے۔‘
یاد رہے کہ امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان گذشتہ سال اگست میں شروع ہونے والے مذاکرات بالآخر حتمی امن معاہدے کی جانب گامزن ہیں۔ اس معاہدے سے قبل فریقین کے درمیان ایک ہفتہ کے لیے جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا ہے جسے ایک بڑی پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے تعاون سے امریکہ اور طالبان کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی چلتی رہی (فوٹو: اے ایف پی)

اس جنگ بندی کا مقصد معاہدے سے قبل یہ دیکھنا ہے کہ فریقین امن عمل میں کتنے سنجیدہ ہیں۔
سینئر صحافی اور افغان امور کے ماہر رحیم اللہ یوسفزئی کہتے ہیں کہ اس معاہدے کے بعد پاکستان کی خطے میں ساکھ بہتر ہوگی اور پاکستان چاہے گا کہ اُس کے جو تحفظات ہیں اُن کو بھی دور کیا جائے۔
اُن کے مطابق امریکہ ہمیشہ ہی سے ’ڈو مور‘ کہتا آیا ہے، مگر اس معاہدے کے بعد وہ پاکستان کی کوششوں کو سراہے گا۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان میں موجود افغان پناہ گزینوں کو اپنے ملک جانے کا موقعہ ملے گا۔
پاکستان  کے دفترِ خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے اُردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کافی عرصے سے افغانستان میں امن کی کوششیں کرتا آیا ہے۔ کیونکہ افغانستان میں امن ہونے کا مطلب ہے کہ خطے میں بھی امن آئے گا۔
انھوں نے مزید کہا کہ حال ہی میں اقوامِ متحدہ کے جنرل سیکرٹری انتونیو گوئترس نے دورہ پاکستان کے دوران افغانستان میں پاکستان کی امن کی کوششوں کے حوالے سے کہا ہے کہ پاکستان کو وہ پذیرائی نہیں ملی جو اُس کو ملنی چاہیے تھی۔
اس سے قبل بھی عائشہ فاروقی نے اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ پاکستان 29 فروری کو ہونے والے معاہدے کا خیر مقدم کرتا ہے اور پاکستان ایک پر امن، متحد، خوشحال، مستحکم اور جمہوری افغانستان کی حمایت کرتا ہے، جس کی اس پورے خطے کو ضرورت ہے۔

ماہرین کے مطابق افغانستان میں حکومت کے قیام کے حوالے سےمشکل وقت کا آغاز ہو گیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

واضح رہے کہ امریکی صدر کی جانب سے گزشتہ سال اچانک مذاکرات معطل کرنے کے بعد پاکستان کے تعاون سے دونوں فریقوں میں بیک ڈور ڈپلومیسی چلتی رہی، جس میں اسلام آباد کی جانب سے ایک بار پھر کوشش کی گئی کہ دونوں فریقین کو مذاکرات کی میز پر لایا جائے۔ پاکستان کا دعویٰ ہے کہ امن معاہدہ اس کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔
امریکہ اس معاہدے کا ہمیشہ سے ہی خواہاں رہا ہے، سابق صدر باراک اوباما نے بھی اپنے دورِ حکومت میں امن کے لیے طالبان سے مذاکرات کی حامی بھری تھی مگر کافی عرصے تک فریقین کے درمیان امریکی فوج کے افغانستان سے انخلا اور طالبان کی جانب سے جنگ بندی پر ڈیڈ لاک برقرار رہا ہے۔ 
پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ ریاض کھوکھر کو خدشہ ہے کہ افغانستان میں امن سے انڈیا خوش نہیں ہوگا، کیونکہ افغانستان میں امن کا مطلب ہے کہ پاکستان میں امن ہوگا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’انڈیا پر بھروسہ کرنا بے وقوفی ہوگی۔‘
پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں گزشتہ کچھ عرصے سے بہتری آئی ہے اور اس بات کی امید ظاہر کی جارہی ہے کہ اس معاہدے کے بعد تعلقات میں مزید بہتری آئے گی۔
مگر ریاض کھوکھر کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے جو کردار ادا کرنا تھا وہ کرلیا، پاکستان اگر یہ سوچ رہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ مستقبل میں رشتہ مزید گہرا ہوگا تو یہ انتہائی غلط ہے کیونکہ امریکہ نے انڈیا کے ساتھ اپنی دوستی رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘ 
ماہرین کے مطابق معاہدے سے جہاں افغانستان میں جاری طویل مدتی جنگ کا اختتام ہوگا، وہی افغانستان میں حکومت کے قیام کے حوالے سے مشکل وقت کا آغاز بھی ہوگا۔

شیئر: