پاکستان کے ہمسائیہ ممالک میں چین کے بعد ایران کورونا سے سب سے زیادہ متاثر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
میں پچپن برس سے اوپر کا ہونے کے باوجود بچپن سے دیکھ رہا ہوں کہ بیرونِ ملک سے پاکستان آنے والی ہر پرواز کے مسافروں کو لینڈنگ سے آدھا گھنٹہ پہلے فضائی میزبان دو کارڈ تقسیم کرتے ہیں۔ ایک مسافر کے اس ملک میں قیام کے سفری کوائف کی معلومات کے حصول کی خاطر پر کرنے کے لیے ہوتا ہے اور دوسرا کارڈ یا کاغذ ہیلتھ کارڈ کہلاتا ہے۔ اس میں پرواز نمبر اور کس ایئرپورٹ سے سوار ہوئے کے علاوہ دو بنیادی سوالات پوچھے جاتے ہیں۔ پچھلے تین ماہ میں آپ نے استوائی خطوں یا براعظم افریقہ کا سفر تو نہیں کیا؟ کیا آپ میں زرد بخار کی علامات تو نہیں پائی جاتیں؟
مجھے تو لگتا ہے کہ اس ہیلتھ کارڈ کی عبارت بھی انگریز دور سے چلی آ رہی ہے اور جس میں پولیس ایکٹ مجریہ 1861 اور غداری کے قانون مجریہ 1860 کی طرح کسی قسم کی کوئی تحریری تبدیلی حرام تصور کی جاتی ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ چین اور مشرقِ بعید سے آنے والی پروازوں میں بھی آج تک یہی ہیلتھ کارڈ خانہ پری کے لیے بانٹا جا رہا ہوگا۔ اور کورونا وائرس کے دور میں بھی مسافر اسی خانے پر ٹک کر رہا ہو گا کہ آپ نے پچھلے تین ماہ میں براعظم افریقہ کا سفر تو نہیں کیا۔ کیا آپ میں زرد بخار کی علامات تو نہیں پائی جاتیں۔
اور پھر اس ہیلتھ کارڈ میں ہر سوال کے آگے یس کے بجائے نو لگا کے امیگریشن کاؤنٹر پر ایک اکتائے ہوئے بیزار صورت اہلکار کو سینکڑوں مسافر تھما کے چلتے بنتے ہیں۔ اللہ جانے اس ہیلتھ کارڈ کے ڈھیر کو یہ اہلکار فوراً ہی کوڑے دان میں ڈال دیتا ہے یا اس کا ریکارڈ کچھ عرصے تک محفوظ رکھا جاتا ہے۔
امیگریشن حکام کے پاس کیا ذریعہ ہے جس سے وہ یہ تصدیق کر سکیں کہ میں ہیلتھ کارڈ پر جھوٹ لکھ رہا ہوں یا سچ؟ جب سے سعودی عرب نے پولیو ویکسینیشن کے سرٹیفکیٹ کی پابندی لگائی ہے۔ اس کے بعد سے یہ ٹریول ایجنٹ کی ذمہ داری ہے کہ یہ سرٹیفکیٹ اِشو کروائے۔ اب مسافر نے سرٹیفکیٹ جاری کرنے والے مجاز طبی عملے کے سامنے پولیو کے قطرے پیے یا نہیں ۔یا پھر یہ کاغذ پاسپورٹ کے ساتھ ہی ٹریول ایجنٹ مسافر کو تھما دیتا ہے کون جانتا ہے؟
کورونا وائرس کا زیادہ زور اب تک چین اور اس کے ہمسایہ جنوب مشرقی ایشیا اور مشرقِ بعید کے ممالک ہی میں رہا ہے۔ جن میں فلپینز، جاپان، شمالی و جنوبی کوریا، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ شامل ہیں۔ لیکن اب ایران ، خلیجی ریاستوں اور اٹلی و سپین و امریکہ اور اب پاکستان سمیت دنیا کے 38 ممالک تک یہ وائرس پہنچ چکا ہے۔
پاکستان میں وائرس ایران سے آنے والے دو افراد کے ذریعے پہنچا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
چین کے بعد سب سے زیادہ متاثرین ڈائمنڈ پرنسس نامی اس لگژری لائنر پر ہیں جسے جاپان نے پورے کا پورا قرنطینہ قرار دے رکھا ہے اور اس پر ڈھائی ہزار سے زائد مسافر ہیں۔ مگر سب میں علامات نہیں ہیں۔
اس کے بعد سب سے زیادہ متاثر جنوبی کوریا ہے جہاں ایک اقلیتی مذہبی فرقے کے سبب یہ وائرس زیادہ پھیلا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اس فرقے میں بیماری کو چھپانے کا رواج ہے۔ لہذا صحت حکام کو دیر سے پتہ چلا کہ اس فرقے کے چند لوگ کورونا وائرس کا شکار ہو گئے ہیں اور بعد میں یہ وائرس مزید پھیل گیا اور اس کے متاثرین کی تعداد سینکڑوں میں بتائی جا رہی ہے۔
پاکستان کے ہمسائیہ ممالک میں ایران سب سے زیادہ متاثر ہے۔ ایرانی حزبِ اختلاف کے بعض ارکان مجلس کو شبہ ہے کہ حکومت ابھی بھی متاثرین کے بارے میں مکمل تفصیلات سامنے نہیں لا رہی۔ البتہ ایران میں اس وائرس کا مرکز قم شہر بتایا گیا ہے جہاں تا دم ِ تحریر 12 اموات کی تصدیق ہوئی ہے۔
پاکستان میں یہ وائرس چین سے نہیں بلکہ ایران کے راستے لگ بھگ ایک ہفتے پہلے واپس آنے والے دو زائرین کے ساتھ داخل ہوا ہے۔
پاکستان میں جب بھی کوئی سرکاری عہدیدار کہتا ہے کہ فول پروف انتظامات کر لیے گئے ہیں، حالات کنٹرول میں ہیں، گھبرانا نہیں ہے، تو یہ باتیں سن سن کر میرے اور مجھ جیسے لاکھوں افراد کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔
پاکستان میں کورونا کے پہلے متاثرہ شخص کو کراچی کے آغا خان ہسپتال میں رکھا گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
اب تک کورونا وائرس جتنے بھی ممالک میں پھیلا ہے ان میں سوائے افغانستان سب کا بنیادی نظامِ صحت پاکستان سے بہتر ہے۔ اس کے باوجود یہ وائرس ان ممالک کے قابو میں نہیں آ رہا۔
اس کے برعکس پاکستان میں ہر سال گرمیوں میں پھیلنے والا ڈینگی سردیوں میں خود بخود ہی ختم ہو جاتا ہے۔ رتو ڈیرو اور لاڑکانہ کے دیگر علاقوں میں گذشتہ برس ایچ آئی وی پازیٹو وبائی انداز میں بچوں اور بڑوں میں پایا گیا۔ اس کا تدارک بھی آسمانی امداد کی آس کے ذریعے کرنے کی کوشش کی گئی۔ پولیو کے متاثرین سٹاک ایکچینج کے شیئرز کی طرح کسی ایک سال کم تو اگلے برس زیادہ ہو جاتے ہیں۔ ہر بڑھیا سے لے کر حقیر ملک تک سب نے پولیو سے نجات پا لی ہے سوائے افغانستان اور پاکستان کے۔ حتیٰ کہ کتے کے کاٹے کی ویکسین کا شمار بھی لگژری طبی آئٹمز میں ہونے لگا ہے۔
ویسے تو ایمر جنسی رسپانس کے ادارے بھی ہیں۔ قدرتی آفات سے نمٹنے اور تمام متعلقہ ایمرجنسی محکموں کو ون پیج پر لانے کا کاغذی طریقہ کار بھی نافذ ہے ۔ اس کے باوجود پچھلے ہفتے کراچی کے بندرگاہی علاقے میں کوئی نامعلوم خطرناک گیس پھیلنے سے 14 افراد ہلاک اور تین سو کے لگ بھگ متاثرین ہسپتالی ایمرجنسی میں لائے گئے ۔ آج تک ہر محکمہ جگہ، لیکیج، گیس کی نوعیت اور اسباب جاننے کے لیے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے طرح طرح کے دعوے کر رہا ہے اور یہ بھی کہہ رہا ہے کہ اب صورتِ حال کنٹرول میں ہے۔
ایسے میں اب کورونا وائرس بھی پاکستان پر نازل ہو گیا ہے ۔ ایک سورہ فاتحہ ان سب کے لیے جو ہر بار ایسی کسی ایمرجنسی کے موقع پر کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے حالات قابو میں ہیں۔ انتظامات تسلی بخش ہیں۔
اب کے اس زلف میں وہ پیچ پڑا ہے کہ اسے
دستِ قدرت ہی سنوارے تو سنوارے میری جاں
واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں/ویڈیوز، کالم و بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں