Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا برطانیہ نواز شریف کو ڈی پورٹ کر سکتا ہے؟

فردوس عاشق اعوان کے مطابق حکومت کی اصلاحات سے ادارے مضبوط ہو رہے ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
وزیر اعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ حکومت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کو وطن واپس لانے کے لیے برطانوی حکومت کو خط لکھ دیا ہے۔
تاہم  بین الاقوامی قوانین کے ماہرین کی نظر میں وفاقی حکومت کی جانب سے برطانوی حکومت کو نواز شریف کی وطن واپسی کے لیے لکھے گئے خط کی برطانیہ میں کوئی قانونی حیثیت نہیں ہوگی۔ ان کے مطابق  نواز شریف پاکستان اور برطانیہ کے درمیان مجرمان کے تبادلے کے معاہدے کے زمرے میں نہیں آتے۔
 
سابق وزیر قانون ڈاکٹر خالد رانجھا نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'برطانیہ اور پاکستان کے درمیان مجرمان کی حوالگی کا معاہدہ موجود ہے۔ حکومت نے خط لکھا ہے تو برطانیہ نوازشریف  کو ڈی پورٹ کر سکتا ہے۔'
تاہم ان کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی معاہدوں میں کوئی پابندی نہیں ہوتی کہ ہر صورت اس پر عمل درآمد ہوگا۔ ’یہ ایک ملک کی دوسرے ملک کے لیے احترام ہوتا ہے کہ وہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر کاربند رہیں۔‘
برطانیہ میں مقیم پاکستان وکیل عائشہ یوسف نے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ پاکستانی حکومت کے خط کی یہاں کوئی قانونی حیثیت ہوگی۔
’اس کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے بڑی وجہ یہ کہ نواز شریف کا جرم برطانیہ اور پاکستان کے درمیان معاہدے کے دائرہ کار یا زمرے میں نہیں آتا۔ دوسری بات یہ کہ نواز شریف کے خلاف بننے والے مقدمات کے پیچھے سیاسی انتقام کا عنصر موجود ہے۔ اس لیے برطانیہ خود کو اس معاملے سے دور ہی رکھے گا۔‘
دوسری جانب معلوم ہوا ہے کہ حکومت کو خود بھی معلوم ہے کہ نواز شریف کو ڈی پورٹ کرنے کے لیے لکھے جانے والے خط کو برطانوی حکام بھی خاص اہمیت نہیں دیں گے۔

عائشہ یوسف کے مطابق ان کا نہیں خیال کہ پاکستانی حکومت کے خط کی یہاں کوئی قانونی حیثیت ہوگی (فوٹو: ٹوئٹر)

اردو نیوز نے اس حوالے سے حکومتی لیگل ٹیم کے ایک رکن سے بھی رابطہ کیا۔ جنھوں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ اس خط کا لکھا جانا صرف اتنا ہی تھا کہ ایک خط لکھنا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر خط کا جواب آئے۔
لیگل ٹیم کے رکن کے مطابق 'جب بھی خط لکھا جاتا ہے تو دوسرے ملک پر کوئی پابندی نہیں ہوتی کہ آپ ان سے جو درخواست یا مطالبہ کریں وہ اس کو پورا کریں۔ اس کے علاوہ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان معاہدے کے پروٹوکول میں تبدیلی کے باعث بھی نواز شریف کی اس معاہدے کے تحت واپسی ممکن نہیں ہے۔‘
قبل ازین منگل کو کابینہ کے اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس میں فردوس عاشق اعوان کا کہنا تھا کہ نواز شریف دو ہفتوں کے لیے گئے تھے اور 105 پانچ دن وہیں گزار دیے۔ 
’لندن سے آنے والی آہ و بکا کی آوازیں آنا شروع ہو گئی ہیں۔ ریستورانوں میں بیٹھے تصویروں نے بتا دیا تھا کہ وہ کتنا بیمار تھے، اب واپس آ جائیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف کو انسانی ہمدردی کی بنا پر جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ ’ان کی صحت کے حوالے سے میکنزم بنایا تھا کہ پنجاب حکومت صحت کے حوالے سے لائحہ عمل تیار کرے گی۔
’نواز شریف ایک بار بھی ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے۔ جب ان کے ڈاکٹر سے رپورٹ طلب کی جاتی وہ چھٹی بھیج دیتے ہیں۔‘

فردوس عاشق کہتی ہیں کہ نواز شریف ایک بار بھی ہسپتال داخل نہیں ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)

ڈاکٹر فردوس عاشق نے کہا کہ ہمیشہ قانون کو اپنی سہولت کاری کے لیے استعمال کرنے والوں نے ایک بار پھر ایسا کرنے کی کوشش کی ہے۔ علاج نہ کرانے کا مطلب یہی ہے کہ آپ نے سہولت کا غلط استعمال کیا۔
’آپ اخلافی طور پر کہاں کھڑے ہیں، ہمیں اخلاقیات کا درس دینے والوں نے خود اس کی دھجیاں اڑا دی ہیں‘
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت کو جو حلف نامہ دیا گیا اسی کی پابندی کرتے ہوئے واپس آئیں۔
’شہباز شریف ایک بار پھر قابل ترس ن لیگی کارکنوں کو گمراہ کر رہے ہیں، جن کو وہ لاوارث چھوڑ گئے تھے‘
انہوں نے میڈیا پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب وہ یہاں تھے تو روز پلیٹ لٹس کی رپورٹس آتی تھیں اب کوئی نہیں بتاتا کہ صحت کہاں تک پہنچی ہے۔ قبل ازیں انہوں نے کابینہ اجلاس کے ایجنڈے پر بات ہوئے کہا کہ کرونا وائرس کے حوالے سے بات ہوئی، پاکستان میں کیسز کی تعداد پانچ ہو گئی ہے۔ سکولوں میں بچوں کو جسمانی سزا دینے کے خلاف بھی اقدامات کیے جانے پر بات ہوئی اس حوالے سے قانون سازی بھی کی جائے گی. بجلی چوروں کے خلاف سخت کارروارئی کے حوالے سے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔

 

شیئر: