پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات کی تاریخ بہت طویل اور اپنے اندر کئی راز سموئے ہوئے ہے۔
یہاں کئی قومیں آباد اور زوال کا شکار ہوتی رہیں۔ سکندر سے لے کر برطانوی سب آئے اور اپنی نشانیاں چھوڑ کر چلے گئے۔ وہ نشانیاں اب بھی کسی نہ کسی صورت میں یہاں موجود ہیں۔
مزید پڑھیں
-
شاہ جہاں کی بیوی ممتاز محل، جو ہر لحاظ سے ’ممتاز‘ تھیںNode ID: 422831
-
سینٹ پیٹرکس کی کھڑکیوں میں خاص کیا؟Node ID: 449831
-
پرائے شہر کی اس سڑک سے عشقNode ID: 458501
مغل بادشاہ جہانگیر کا انتقال کشمیر سے واپسی پر گجرات میں ہی ہوا تھا۔ ریاست میں بدامنی سے بچنے کے لیے انتقال کی خبر کو چھپایا گیا اور اس کے پیٹ کی انتڑیاں نکال کر یہیں دفنا دی گئیں، جہاں اب ہر سال شاہ جہانگیر کے نام سے ایک میلہ لگتا ہے۔
گجرات شہرکے چار دروازے تھے اور یہاں ایک مضبوط قلعہ بھی ہوا کرتا تھا۔ اب اس قلعے کے محض چند آثار باقی ہیں۔
گجرات شہر کے بیچوں بیچ جاتی سڑک جس کو آج کل سرکلر روڈ کہا جاتا ہے، کبھی رام پیاری روڈ کہلاتی تھی کیونکہ اس سڑک پر ایک تاریخی محل ہے واقع ہے جس کا نام ’رام پیاری محل‘ ہے۔
یہ ’رام پیاری محل‘ اپنے اندر گجرات کا تاریخی اور ثقافتی ورثہ سموئے ہوئے ہے۔
گجرات کے تاریخ دان ندیم اللہ ایڈووکیٹ نے اردو نیوز کو بتایا کہ گجرات کے قصبہ ڈنگہ کے مشہور اور مالدار تاجر راجہ سندر داس نے یہ محل اپنی تیسری بیوی رام پیاری کی محبت میں تعمیر کروایا تھا جو 1917 میں مکمل ہوا۔
راجہ سندر داس 1880 میں پیدا ہوئے اور 1920 میں وفات پا گئے یعنی ان کا کل عرصہ حیات چالیس سال پر محیط رہا۔ انہوں نے جب رام پیاری سے شادی کی تو اس کی عمر 12 سال تھی جبکہ راجہ سندر داس اس وقت 36 سال کے تھے۔ ان کے آبائی قصبے ڈنگہ میں آج بھی سندر محل اور محلہ سندر داس موجود ہیں۔

راجہ سندر داس نے اپنی بیوی کی محبت میں صرف محل ہی تعمیر نہیں کیا بلکہ گجرات سے ڈنگہ آنے والی سڑک کا نام بھی ’رام پیاری روڈ‘ رکھا جسے اب ڈنگہ گجرات روڈ کہا جاتا ہے۔
’رام پیاری محل‘ کو یونانی اور رومن طرز پر تعمیر کیا گیا ہے۔ مرکزی دروازے سے داخل ہوں تو سامنے ایک پر شکوہ عمارت اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتی ہے اور اپنی عظمت رفتہ کی یاد تازہ کر دیتی ہے۔
دس کنال کے رقبے پر پھیلے اس دو منزلہ محل میں چھوٹے بڑے 42 کمرے اور چار تہہ خانے ہیں۔ عمارت کے اندر فرش پر ہندوستانی جبکہ دیواروں پر لگائی گئی فرانسیسی ٹائلیں راجہ سندر داس کے خاندان کی امارت کا پتہ دیتی اور محل کو دیدہ زیب بنا رہی ہیں۔
کسی زمانے میں اس حویلی کے روشن دانوں سے جب فانوس کی روشنیاں ٹکراتی تھیں تو دیکھنے والے دنگ رہ جاتے تھے۔ اس وقت اس محل میں لکڑی کا کام اپنی مثال آپ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کام بھی معدوم ہو گیا۔

اس محل کے دروازے، چھتیں، ستون اور محرابیں اتنی ہی پر کشش ہیں جتنا لاہور اور دہلی کا مغل آرٹ۔
مرکزی ڈیوڑھی کے ستونوں کے اوپری حصہ پر ہندو مذہب کی مناسبت سے دیویوں کی مورتیاں بھی نصب کی گئی ہیں۔
کہا جاتا ہے کہ راجہ کیدار ناتھ نے رام پیاری کے خاندان سے رشتہ داری کے بعد اس کے قریب ہی ایک اور حویلی تعمیر کی جسے کیدار ناتھ حویلی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
راجہ سندر داس تو اپنی شادی کے چار سال بعد ہی وفات پا گئے تھے تاہم رام پیاری اور ان کا خاندان تقسیم ہندوستان تک اس محل میں قیام پذیر رہا۔
بعد ازاں وہ انڈیا ہجرت کر گئے۔ مقامی تاریخ دان بتاتے ہیں کہ رام پیاری کا خاندان اور وہ خود بھی ایک آدھ مرتبہ اس محل کو دیکھنے کے لیے آئیں۔ ان کا انتقال 1976 میں انڈیا میں ہوا۔
ندیم اللہ ایڈووکیٹ کے مطابق قیام پاکستان کے بعد محترمہ فاطمہ جناح کے دورہ گجرات کے موقع پر کیدار ناتھ حویلی میں لڑکیوں کے لیے کالج قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
