انڈیا میں اگر آپ کسی نئے قانون یا حکومت کی کسی کارروائی سے خوش نہ ہوں، تو بہتر ہوگا کہ گھر پر ہی بیٹھے رہیں، زیادہ ناراضی دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر خون زیادہ ہی جوش مار رہا ہو تو کسی مظاہرے میں جانے سے پہلے سرکاری خزانے میں دس بیس لاکھ روپے جمع کرا دیں تو آپ کے لیے بھی آسانی ہوجائے گی اور حکومت کے لیے بھی۔
بس یوں سمجھ لیجیے کہ جیسے آپ نے اپنا بجلی کا میٹر ’پری چارج‘ کرا لیا ہو۔ بجلی خرچ کرتے رہیں گے اور پیسے کٹتے رہیں گے۔ اگر لوگوں نے مناسب تعداد میں دلچسپی دکھائی تو حکومت آپ کے لیے ’پروٹسٹ کارڈ‘ بھی جاری کر سکتی ہے۔
آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس سب کا بیک گراؤنڈ کیا ہے؟
تو دل تھام کر بیٹھیے، اور زیادہ جذباتی ہونے کی ضروررت نہیں ہے۔ اور ہاں، اس کہانی کے تار پاکستان سے بھی جڑے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
تعصب کا وائرسNode ID: 462391
-
شہریت بل،مظاہرین کے پوسٹرز ہٹانے کا حکمNode ID: 463866
-
ہیومر اور ریومر!Node ID: 464136
انڈیا میں شہریت کے نئے متنازع قانون کے خلاف جب دسمبر میں مظاہرے شروع ہوئے تو کئی مقامات پر تشدد بھی ہوا۔ کچھ بسیں جلا دی گئیں اور سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا گیا۔ اب انصاف پسند حکومتیں کہاں کسی کا نقصان ہونے دیتی ہیں، اور جب اقتدار کی باگ ڈور بی جے پی کے ہاتھوں میں ہو تو ایسا سوچنا بھی فضول ہے۔ حکومت نے وقت ضائع کیے بغیر اترپردیش کے کئی شہروں میں ان لوگوں کو معاوضے کے نوٹس بھیجنا شروع کر دیے جو اس کے مطابق پرتشدد احتجاج میں شریک تھے۔
پولیس کا دعویٰ ہے کہ اس نے ویڈیو فوٹیج دیکھ کر ان لوگوں کی نشاندہی کی ہے۔ فوٹیج بہت زیادہ ہے اس لیے پولیس کو فی الحال ان لوگوں کو گرفتار کرنے کا وقت نہیں مل پایا جن کے ہاتھ ممکنہ طور پر ان لوگوں کے خون سے رنگے ہوئے ہو سکتے ہیں جو مظاہروں کے دوران ہلاک ہوئے تھے۔
لیکن آج صرف معاوضے کی بات۔ کچھ لوگوں سے ان لاٹھیوں کے لیے بھی معاوضہ ادا کرنے کے لیے کہا گیا جو ان کی ہی پٹائی کرتے وقت ٹوٹ گئی تھیں! اور آج کل کے ماحول میں یہ پوچھنا بھی زیادہ سمجھداری کا کام نہیں ہے کہ لاٹھیاں اتنی نازک کیوں تھیں، کیا ان کی خریداری میں کوئی گھپلا ہوا تھا؟ یا یہ لاٹھیاں بی جے پی کے دور اقتدار سے پہلے خریدی گئی تھیں جب مظاہرین سے نمٹنے کا پروٹوکول مختلف تھا؟ مظاہرین کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں ٹھیک سے پٹنا بھی نہیں آتا۔
بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہم تو مظاہرے میں شامل تھے ہی نہیں۔ لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ کوئی تو تھا، بسیں خود تو نہیں جلا کرتیں، ویسے بھی انسان ہی انسان کے کام آتا ہے، اس لیے آپ تھے یا آپ کا پڑوسی، خاموشی سے معاوضہ ادا کر دیجیے، ان باریکیوں میں جانے سے کیا حاصل ہوگا۔
اسی سلسلے کے تحت حکومت نے اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں بڑی بڑی ہورڈنگز لگائیں جن پر ان لوگوں کے فوٹو، نام اور پتے چھپے ہوئے تھے جو حکومت کے مطابق یا تو پرتشدد مظاہروں کی پشت پناہی کر رہے تھے یا ان میں شامل تھے۔
یہ لوگ الہ آباد ہائی کورٹ گئے تو عدالت نے ریاستی حکومت کو خوب لتاڑا اور ہورڈنگز اتارنے کا حکم دیا لیکن امن و قانوں کے تحفظ کا سوال ہو اور حکومت خاموش بیٹھ جائے تو آپ ہی اسے دوش دیں گے۔ اس لیے پلک جھپکتے ہی سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا، سپریم کورٹ آج کل ذرا ریلیکسڈ موڈ میں ہی رہتی ہے، اس لیے معاملہ یہ کہتے ہوئے بڑے بینچ کو بھیج دیا گیا کہ اس کیس کے کئی پیچیدہ پہلو ہیں، اس لیے بڑا بینچ ہی شنوائی کرے گا۔
لیکن عدالت نے اتنا ضرور کہا کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس کے تحت حکومت کو عوامی مقامات پر اس طرح کی ہورڈنگز لگانے کا اختیار ہو۔ اب یا تو ہورڈنگز اتاری جاتیں، جن پر دوبارہ خرچہ آتا، یا دوسرا آسان راستہ یہ تھا کہ ایک نیا قانون بنا دیا جائے۔ اس لیے عدالت کے ریمارکس کے چند ہی گھنٹوں کے اندر اس کی شکایت دور کر دی گئی، اب ایک نوٹیفیکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کے تحت معاوضے کی وصولی کے لیے خصوصی ٹریبونل قائم کیے جائیں گے اور ان کے فیصلوں کو سول عدالتوں میں چیلنج نہیں کیا جاسکے گا! ٹھیک ہی تو ہے،عدالتوں میں ویسے ہی بہت مقدمے برسوں سے گھسٹ رہے ہیں، ان پر مزید بوجھ بڑھانا کون سی سمجھداری کی بات ہے۔
معاملہ تو ٹریبونل تک بھی نہیں پہنچنا چاہیے، ووٹر بہت سوچ سمجھ کر حکومتیں منتخب کرتے ہیں، اس لیے ان کی انصاف پسندی پر بھروسہ کیا جانا چاہیے۔ نوٹس آئے کہ مظاہرے میں اتنے روپے کا نقصان ہوا ہے اور آپ فوراً آن لائن بینک ٹرانسفر کردیں۔
یا آپ اس کام سے بھی بچنا چاہتے ہوں تو ایک پروٹیسٹ کارڈ بنوالیں اور اسے ریچارج کراتے رہیں، حکومت نقصان کا تخمینہ لگائے اور کارڈ میں سے پیسے کاٹ لے، بعد میں بل آپ کو بھیج دیا جائے اور آپ چیک کرلیں کہ صرف انہیں چیزوں کے لیے پیسے کاٹے گئے ہیں جنہیں آپ نے نقصان پہنچایا تھا۔ یار دوست ساتھ میں بیٹھیں اور بل پر ایک نگاہ ڈال لیں، ارے شیشے پر ہم نے پتھر پھینکا تو تھا لیکن نشانے پر لگا کہاں تھا؟ اور حکومت ظاہر ہے کہ آپ کے ساتھ تعاون کرے گی، یا تو آپ کو ریفنڈ دے دیا جائے گا یا کہا جائے گا کہ ہم نے شہریت کا قانون واپس تو لیا نہیں ہے، یہ لین دین تو چلتا رہے گا، اگلے بل میں ایڈجسٹ کر لیں گے۔
شہریت کے اس نئے قانون کے کچھ دلچسپ پہلوؤں کا اب ذکر ہونا شروع ہوا ہے۔ اس قانون میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے والے غیر مسلمانوں کو شہریت دینے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ اور بظاہر پلان یہ ہے کہ پورے ملک میں لوگوں سے اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے کہا جائے گا، اور جو جائز شہری ہوں گے ان کا ایک رجسٹر ترتیب دیا جائے گا۔ (شہریت کا قومی رجسٹر یا این آر سی)۔
قانون کی مخالفت کیوں ہو رہی ہے؟ کیونکہ بہت سے لوگوں کو لگتا ہے کہ اس میں مسلمانوں کے خلاف امتیاز برتا گیا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ بھی دیا جائے اور ان تینوں ملکوں سے آنے والے باقی لوگوں کوشہریت دے دی جائے اس پر بہت کم لوگوں کو اعتراض ہوگا۔ لوگوں کو اصل خطرہ یہ ہے کہ این آر سی کے وقت جو مسلمان اپنی شہریت ثابت نہیں کر پائیں گے وہ کہیں کے نہیں رہیں گے۔
لیکن ایسا نہیں ہے کہ کاغذ صرف مسلمانوں کے پاس نہیں ہیں۔ بڑی تعداد میں ہندو بھی اس فہرست سے باہر رہ جائیں گے، اس ملک میں کتنے لوگوں کے پاس اپنی پیدائش کا سرٹیفکیٹ ہوگا، ماں باپ کا تو بہت دور کی بات ہے۔
تو بظاہر پلان یہ ہے کہ ان لوگوں کو نئے قانون کے تحت شہریت دے دی جائے گی۔ لیکن شہریت کی سہولت صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو 31 دسمبر، 2014 تک پاکستان، بنگلہ دیش یا افغانستان سے ہندوستان آئے ہوں۔
باقی سمجھانے کے لیے زیادہ کچھ بچتا نہیں ہے۔ ان لوگوں کو اگر شہریوں کی فہرست میں شامل ہونا ہے تو یہ کہنا ہوگا کہ وہ پاکستان یا بنگلہ دیش سے ہندوستان آئے تھے! یا یوں کہیے کہ جو ہندوستانی ہیں، اور ہمیشہ سے تھے، اور جن کی وفاداری کبھی مشکوک نہیں تھی، انہیں بھی ہندوستانی رہنے کے لیے ’پاکستان کارڈ‘ استعمال کرنا پڑ سکتا ہے۔
لیکن جیسا میں نے پہلے کہا، برے وقت میں پڑوسی ہی پڑوسی کے کام آتا ہے!
-
واٹس ایپ پر خبروں/کالم اور بلاگز کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں