Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاک ڈاؤن: شہری و دیہی زندگی میں کتنا فرق؟

کورونا وائرس نے دیہی زندگی کو بھی متاثر کیا ہے (فوٹو سوشل میڈیا)
'پہلے جہاں بھی دیکھتے تھے دروازے بند ہوتے تھے، ہر گھر ہی ویران تھا بہت سے لوگ دیہات میں موجود اپنے گھر چھوڑ کر شہر میں جا کر رہنے لگے مگر اب کورونا وائرس نے سب کے گھر آباد کر دیے، لوگ شہروں سے واپس گاؤں میں آ کر رہنے لگے ہیں۔'
یہ الفاظ اس بچے کے منہ سے نکلے جو ساتھ والی چھت پر اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کے ساتھ کھیل کود میں مصروف تھا۔
بچے کی بات سن کر خیال آیا کہ پاکستانی شہروں اور دیہات میں کورونا کے اثرات سے متعلق کچھ لکھا جائے، تو پھر کیوں نہ وہ لکھا جائے جو خود پر گزری ہے۔
کورونا وائرس دیہی زندگی پر بھی اثر انداز ہوا ہے۔ شہر میں رہتے ہوئے مجھ جیسے شعبہ صحافت سے تعلق رکھنے والوں کے لیے تو پورا دن گھر پر گزارنا کافی مشکل تھا، پورا دن گھر میں بور ہوتی رہتی اور ذہنی دباؤ میں بھی اضافہ ہونے لگا تھا۔
ٹی وی آن کرو تو کورونا سے متعلق خبریں دیکھنے کو ہی ملتیں۔ ہر وقت موبائل پر بھی تمام سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر اسی وباء سے متعلق خبریں سامنے آتیں، جیسا کہ نئے کیسز کی تعداد، اموات اور صحتیاب ہونے والوں کی تعداد، اسی سے متعلق حفاظتی تدابیر اور کورونا وائرس سے متعلق نت نئے ٹوٹکے۔
یہ سب ڈپریشن میں مزید اضافہ کرنے لگا۔ جب پورے آٹھ دن بعد گھر سے کچھ ضروری سامان کی خریداری کے لیے باہر نکلی تو حالات دیکھ کر دل اور بھی زیادہ اداس ہونے لگا، سب کچھ بند تھا سوائے چند دکانوں کے، سڑکیں بالکل خالی اور ویران۔ جس کو دیکھو ہر کسی نے ہی ماسک پہن رکھے تھے، بہت ہی عجیب سی کیفیت تھی۔
اس ساری صورت حال سے اکتا کر گاؤں آنے کا فیصلہ کیا اور جب اپنے گاؤں پہنچی تو حالات تھوڑے مختلف تھے گاؤں پہنچتے ہی ساری ٹینشن جیسے اچانک سے ختم ہوگئی ہو۔
سوشل ڈسٹنسنگ کی ایسی تیسی کرتے ہوئے سب سے ملنے کے بعد جب گھومنے پھرنے نکلی تو گاؤں کے تازہ اور صاف ستھرے ماحول میں یوں لگا جیسے زندگی کی نئی لہر دوڑنے لگی ہو، ذہنی دباؤ بالکل ختم ہوگیا۔ کھیتوں میں جب مختلف نظارے دیکھنے کو ملے تو دل کو سکون ملا، ایک طرف سر سبز گندم کے کھیت دوسری جانب دریائے سواں کا  ٹھنڈا پانی، خوبصورت اور دل موہ لینے والے نظاروں سے کچھ پل کے لیے بھول ہی گئی کہ کورونا نامی کوئی وبا بھی میری زندگی میں ہے۔

کورونا وائرس نے بہت سوں کا فطرت کے قریب سمجھی جانے والی دیہی زندگی جینے کا موقع دیا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

انتہائی خوشگوار اور پر سکون ماحول، صاف ستھرا آسمان، چہچہاتے پرندے، لہلہاتے کھیت، ہر طرف ہریالی، گاؤں کے قدرتی ماحول میں سب کچھ ہی گویا بھول سی گئی۔ قدرت کو ایک مرتبہ پھر سے قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، ساتھ ساتھ ان مناظر کو فون میں بھی محفوظ کرتی رہی اور جب اپنے فیس بک ٹوئٹر اور انسٹاگرام پر تصاویر اور ویڈیوز اپ لوڈ کیں تو دوست کہنے لگے تم تو اپنی زندگی زبردست اور مزے سے گزار رہی ہو، ایسی زندگی جو قدرت کے بہت قریب ہے، شہروں میں کہاں ایسے جینے کا موقع ملتا ہے، خاص طور پر موجودہ صورتحال میں جب ہر طرف ڈپریشن ہے۔
جانوروں کا چارہ تیار کرنے والی مشین کے ساتھ چھیڑ خانی، لکٹریوں سے آگ جلا کر چولہے پر روٹی بنانے اور کھیتوں میں جھومنے والی ویڈیوز اور مختلف نظاروں کی تصاویر پر کمنٹس دیکھ کر یوں لگا جیسے دیکھنے والے بھی خوب لطف اندوز ہو رہے ہوں، وہ تمام کام جو عام زندگی میں کبھی سوچے بھی نہ ہوں، کرنے سے دلی سکون بھی ملا۔ احباب تو یہ تک کہہ گئے کہ ’چلو کورونا نے آپ کو سلیقہ شعار بنا دیا ہے۔‘ خیر یہ تو وہ سب تھا جو کورونا کے بعد شہر سے دیہات کا رخ کرنے کے بعد مجھ پر گزرا۔

طبی سہولیات نہ ہونا یا دوردراز ہونا دیہی زندگی کے اہم مسائل میں سے ایک ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

اس صورت حال میں اگر گاؤں والوں کی بات کی جائے تو وبا سے متعلق حکومتی اعلانات اور اقدامات اپنی جگہ لیکن وبائی صورت حال اور اس کے اثرات سے دیہات کے لوگ بھی کافی زیادہ پریشان ہیں اور احتیاطی تدابیر باقاعدگی سے اپنا رہے ہیں۔
لوگوں نے میل جول کم کر دیا ہے، چھوٹے بچوں کو بھی ماسک پہنے اور ہاتھ ملانے سے منع کرتے دیکھا گیا ہے۔ یہ سب دیکھ کر کافی اچھا بھی لگا کہ یہاں کے لوگ بھی اس وبا کو سنجیدہ لے رہے ہیں لیکن یہاں سب کی بات نہیں ہو رہی کچھ تو واقعی سنجیدہ ہیں مگر کچھ ایسے بھی ہیں جو خوشی غمی کے موقعے پر بے احتیاطی برتتے دکھائی دیے۔

دیہی زندگی میں بھی کورونا کے پیش نظر احتیاطیں اپنانے کا سلسلہ بڑھا ہے (فوٹو: سوشل میڈیا)

حیرت تو تب ہوئی جب رات آٹھ بجے ڈھول کی تھاپ اور  بینڈ باجوں کی آوازیں سنیں۔ معلوم ہوا ساتھ والے محلے میں کسی کی شادی ہے، آتش بازی بھی جاری تھی۔ خیر پھر معلوم ہوا کہ پولیس نے وہاں پہنچ کر رنگ میں بھنگ ڈال دیا ہے اور قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا بھی مل گئی۔
اس وبا نے جہاں شہری زندگی پر اثر انداز ہو کر بہت کچھ بدل دیا وہیں دیہاتی زندگی کے معمولات بھی پہلے جیسے نہیں رہے۔ یہاں کے لوگ کافی پریشان ہیں، ان کے مطابق اشیائے خوردونوش انتہائی مہنگی اور منہ بولے داموں پر فروخت کی جا رہی ہیں۔ 
لوگوں کا کہنا ہے پہلے ہی کاروبار بند ہیں، کام ہے نہیں اور مہنگائی بڑھتی جا رہی ہے، ایسے میں مہنگائی کرنے والے دکانداروں کو کوئی پوچھنے والا بھی نہیں ہے۔
  • واٹس ایپ پر پاکستان کی خبروں کے لیے ’اردو نیوز‘ گروپ جوائن کریں

شیئر: