کورونا وائرس کی ایمرجنسی اور لاک ڈاؤن کے دوران یورپی ممالک میں مقیم پاکستانی انسانی خدمات کے شعبے میں نت نئی مثالیں قائم کرتے ہوئے مقامی سطح پر اپنے تشخص کو بہتر بنانے میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔
اپنے اپنے میزبان ممالک میں مشکل وقت میں ان پاکستانیوں کے بہتر سماجی کردار کی مقامی سیاسی حلقوں، عوام اور میڈیا میں بھی ستائش جاری ہے۔
برطانیہ میں پاکستانی نژاد ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کے کارہائے نمایاں زبان زد عام ہیں۔ سپین اور برطانیہ میں پاکستان کے ٹیکسی ڈرائیوروں کی جانب سے ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کے عملے کے لیے مفت ٹیکسی سروس کو بھی یورپ میں سراہا جا رہا ہے۔ کئی دیگر یورپی ممالک میں پاکستانی انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے میزبان ممالک میں انسانی خدمات کے نئے ریکارڈ قائم کر رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کورونا وائرس کے خلاف جنگ میں گمنام ہیروزNode ID: 467606
-
پاکستانی ڈرائیوروں کی فری ٹیکسی سروسNode ID: 469536
-
ہزاروں ڈاکٹرز کورونا سے نہیں لائسنس نہ ملنے سے پریشانNode ID: 470506
قیصر عباس گوندل پاکستانی ہیں اور گذشتہ ایک دہائی سے بھی زائد عرصے سے برطانیہ میں مقیم ہیں۔وہ لندن کے نواحی علاقے ویسٹ تھورک سے منتخب ہونے والے پہلے مسلمان کونسلر ہیں۔
قیصر عباس نے کورونا وائرس کی ایمرجنسی کے ساتھ ہی محسوس کیا کہ جہاں بہت سے گھرانوں نے وافر مقدار میں خوراک ذخیرہ کرلی ہے وہاں کچھ ایسے بھی ہیں جو خوراک جمع نہیں کر سکے۔ انہوں نے اپنے علاقے میں بلاامتیاز راشن گھروں تک پہنچایا تاکہ لوگ لاک ڈاؤن کے دوران اپنے گھروں کے اندر رہ سکیں۔
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ 'مقامی ہسپتال میں مریضوں اور عملے کے لیے کئی روز تک تیار کھانا فراہم کیا۔ مقامی رضا کاروں کو ماسک کی قلت کا سامنا ہوا تو اڑھائی ہزار رضاکاروں کے لیے ماسک کا اہتمام کیا۔ موجودہ صورت حال میں مقامی مینٹل ہسپتال کو مشکلات کا سامنا ہوا تو ان کو درپیش مسائل کے حل میں بھی کردار ادا کیا۔'

کورونا وائرس کے حوالے سے فنڈ ریزنگ کے معاملے میں قیصر عباس ٹرینڈ سیٹر سمجھے جاتے ہیں۔ انھوں نے سات دن قرنطینہ میں رہنے کے بعد بڑھی ہوئی داڑھی کے ساتھ فیس بک پر پیغام دیا کہ 'اگر 50 افراد اپنی مرضی کی کسی بھی چیرٹی تنظیم کو چندہ فراہم کرنے کا وعدہ کریں تو اپنے کے سر کے تمام بال منڈوا دیں گے۔'
قیصر عباس نے بتایا کہ '18 گھنٹے میں 300 سے زائد افراد نے 3500 پاؤنڈ چندہ دیا۔ میں نے حسب وعدہ سر کے تمام بال صاف کروا دیے۔ اس کے بعد کئی دیگر لوگوں نے بھی اس کی پیروی کی۔ سکائی ٹی وی نے اس کو اس انداز میں رپورٹ کیا کہ آخر لوگ سر کے بال کیوں منڈوا رہے ہیں۔'
ان کا کہنا ہے کہ 'جب مقامی ارکان پارلیمنٹ تک اپنے گھروں میں بند ہیں تو وہ یہ سوچ کر میدان عمل میں نکلے ہیں کہ اس ملک نے ہمیں بہت کچھ دیا ہے اب وقت ہے کہ وہ قرض لوٹایا جائے۔'

سپین کورونا کے مریضوں کی تعداد کے حوالے سے امریکہ کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے۔ جہاں ایک دن میں مریضوں کی تعداد میں پانچ سے آٹھ ہزار کا اضافہ ہوتا رہا ہے جبکہ روزانہ کی بنیاد پر 500 سے 900 تک اموات بھی ہوئی ہیں۔
سپین کے طبی شعبے میں پاکستانی ڈاکٹرز اور پیرامیڈیکل سٹاف کی بڑی تعداد ان مشکل حالات میں اپنے فرائض بطریق احسن انجام دے رہی ہے۔
ان میں سے ایک ڈاکٹر عرفان مجید راجا ہیں۔ اردو نیوز سے گفتگو میں ڈاکٹر عرفان مجید نے ہر بار سپین کو اپنا ملک قرار دیا اور مریضوں کو ہمارے اپنے مریض کہہ کر مخاطب کرتے رہے۔
انھوں نے کہا کہ 'ہر آفت میں خیر کا پہلو ہوتا ہے اور کورونا کی وبا میں خیر کا پہلو یہ ہے کہ اس نے ہمیں فرنٹ لائن فورس میں کھڑا ہونے کا موقعہ دیا ہے۔ ہم نے اپنی اوقات سے بڑھ کر اپنے لوگوں کی خدمت کی ہے اور ان کی جانیں بچانے کی کوشش کی ہے۔'

ڈاکٹر عرفان نے کہا کہ 'اس صورت سے سبق یہ سیکھا ہے کہ ڈاکٹر کو ہر حالت میں جدید طبی آلات کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مشکل وقت میں اسے زمینی حقائق کے ساتھ بھی لڑنا ہوتا ہے۔ انھی زمین حقائق کو سامنے رکھ کر علاج کرنا ہوتا ہے۔ اعداد و شمار بتا رہے ہیں کہ سپین جلد کورونا سے چھٹکارا پا لے گا۔'
طاہر رفیع بھی 20 سال سے بارسلونا کے ایک ہسپتال کے پیرامیڈیکل سٹاف کا حصہ ہیں۔ ان کا کام پاکستانی انڈین اور بنگالی مریضوں کو دیکھنا ہے۔ کورونا وائرس کی صورت حال پر اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ 'حالات دیکھ کر کئی بار اللہ سے رحم طلب کیا لیکن ساتھ ہی شکر بھی ادا کیا کہ اس نے ہمیں اس قابل بنایا کہ اس کے بندوں کے کام آ رہے ہیں۔ یہی جذبہ مزید کام کرنے کی ہمت اور لگن دیتا ہے۔'

کورونا میں سب سے زیادہ ہلاکتیں اٹلی میں ہوئی ہیں۔ وہاں پر لاک ڈاؤن کی سختی کے باعث دیگر کمیونٹیز کو رضاکارانہ کام کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے باوجود کئی ایک متاثرہ علاقوں میں پاکستانیوں نے قائدانہ کردار ادا کرتے ہوئے مقامی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے۔
اٹلی کے صوبہ کارپی میں مقیم پاکستانی شہری شہباز احمد نے بتایا کہ 'اٹلی میں مقیم زیادہ تر پاکستانی مزدور طبقہ ہیں یا فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں۔ اٹلی کی حکومت مقامی انتظامی معاملات میں غیر ملکیوں کی مداخلت پسند بھی نہیں کرتی۔ اس کے باوجود کارپی بریشیا اور کئی دیگر صوبوں میں پاکستان کمیونٹی نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر کئی لاکھ یورو فنڈ اکٹھا کرکے مقامی انتظامیہ کو دیا ہے۔'
