چیف جسٹس گلزار احمد نے ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات پر گزشتہ ہفتے ازخود نوٹس لیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کی سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو کورونا وائرس کی روک تھام کے لیے اٹھائے اقدامات کی تفصیلی رپورٹ ایک ہفتے میں جمع کرانے کی ہدایت کی ہے تاہم عدالتی حکم نامے میں وزیراعظم کے معاون خصوصی ظفر مرزا کے حوالے سے ہدایات شامل نہیں ہیں۔
اس سے قبل چیف جسٹس گلزار احمد نے ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کے بارے میں ریمارکس دیے تھے جس پر اٹارنی جنرل نے کہا تھا کہ اس موقع پر ایسا کرنا تباہ کن ہوگا۔
پیر کو سپریم کورٹ میں کورونا وائرس کی صورتحال میں ہسپتالوں میں ناکافی سہولیات پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت کرتے ہوئے چیف جسٹس گلزار احمد نے حکومتی ٹیم اور وزرا کی کارکردگی پر سوال اٹھائے تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے کہا کہ عدالتی آبزرویشن سے نقصان ہوگا۔
سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ سمجھ نہیں آ رہی کس قسم کی ٹیم کورونا پر کام کر رہی ہے، اعلی حکومتی عہدیداران پر سنجیدہ الزامات ہیں، ظفر مرزا کس حد تک شفاف ہیں کچھ نہیں کہہ سکتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ معاونین خصوصی کی پوری فوج ہے جن کے پاس وزرا کے اختیارات ہیں۔
چیف جسٹس نے پوچھا کہ حکومتی کابینہ 50 رکنی ہوگئی، اس کی کیا وجہ ہے؟ کئی کابینہ ارکان پر جرائم میں ملوث کے مبینہ الزامات ہیں۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے اس موقع پر کہا کہ عدالت کی آبزرویشن سے نقصان ہوگا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ ریمارکس دینے میں بہت احتیاط برت رہے ہیں، عدالت کو حکومتی ٹیم نے صرف اعدادو شمار بتائے، بریفننگ میں حکومتی ٹیم سے پانچ سوال پوچھے تھے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت کی ٹیم کسی ایک سوال کا بھی جواب نہیں دے سکی۔
اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کوئی ملک کرونا سے لڑنے کے لیے پیشگی تیار نہیں تھا۔
ظفر مرزا کے بارے میں چیف جسٹس اور اٹارنی جنرل کا مکالمہ
چیف جسٹس نے کہا کہ وہ آج صحت کے مشیر ظفر مرزا کو عہدے سے ہٹانے کا حکم دیں گے، ان کی کارکردگی تسلی بخش نہیں ہے۔
اٹارنی جنرل نے اس موقع پر ایسا حکم تباہ کن ہوگا۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ ’آدھی فلائٹ میں ظفر مرزا کو نہ ہٹایا جائے اور اس بارے میں فیصلہ حکومت پر چھوڑ دیا جائے۔
واضح رہے کہ مشیر صحت ظفر مرزا اور نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے حکام نے گزشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے ججز کو کورونا وائرس اور حکومتی اقدامات پر بریفنگ دی تھی۔
ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ ریاستی مشینری کو اجلاسوں کے علاوہ بھی کام کرنے ہوتے ہیں، کیا ملک بند کرنے سے پہلے اس کے اثرات کا جائزہ لیا گیا؟
چیف جسٹس نے پوچھا کہ قانون سازی کے حوالے سے حکومت کا کیا ارادہ ہے؟ کیا ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے پارلیمان قانون سازی کرے گا؟ کئی ممالک ایمرجنسی سے نمٹنے کیلئے قانون سازی کر چکے۔
جسٹس قاضی امین نے پوچھا کہ سماجی فاصلہ رکھنے کے حکومت کیا عمل کروا رہی ہے؟ انہوں نے کہا کہ جمعہ کے اجتماع پر اسلام آباد میں جو ہوا کیا کسی کو نظر آیا؟ْ
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سماجی فاصلے کیلئے عوام کو خود ذمہ داری لینا ہوگی، پولیس یا فوج 22 کروڑ عوام کو فاصلے قائم رکھنے پر کیسے زبردستی کروا سکتی ہے۔
آج کا عدالتی حکم نامہ
سماعت کے اختتام پر عدالت نے اپنے حکم نامے میں لکھوایا کہ کراچی میں 11 یونین کونسلز سیل کرنے کی ٹھوس وجوہات نہیں بتائی گئیں اور سندھ حکومت کو بند کیے گئے علاقوں میں متاثرین کی اصل تعداد کا بھی علم نہیں۔
عدالتی حکم کے مطابق سیل کی گئی یونین کونسلز میں کھانا اور طبی سہولیات فراہم کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں جبکہ سندھ حکومت آٹھ ارب روپے کے راشن کی تقسیم کے شواہد بھی پیش نہیں کر سکی۔ عدالتی آرڈر میں لکھوایا گیا کہ سندھ بھر سے لوگوں کی کھانا نہ ملنے کی شکایات آ رہی ہیں اور صوبائی حکومت کی کارکردگی افسوسناک ہے۔ عدالت نے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ بتایا جائے سندھ حکومت نے کتنے کا راشن کہاں سے خریدا، اور کس کو کتنا راشن دیا۔
عدالت نے ہدایت کی کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں ڈاکٹروں کی ضروریات پورا کریں اور ڈاکٹروں کو کھانا نہ ملنے کی شکایات کا بھی فوری ازالہ کیا جائے۔
سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں وفاقی، صوبائی حکومتوں اور اسلام آباد انتظامیہ سے بھی کورونا سے نمٹنے کے اقدامات کی تفصیلی رپورٹ جمع کرنے کے لیے کہا ہے۔ سماعت آئندہ پیر تک کے لیے ملتوی کر دی گئی۔