Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کورونا ’ونگار‘ کی دم توڑتی روایت کے لیے بھی آخری دھچکا

چھودری اصغر علی کہتے ہیں کہ منگ کی روایت کورونا کی وجہ سے بھی متاثر ہوگئ ہے (فوٹو: اردو نیوز)
بیساکھ کا مہینہ کسانوں کے لیے خوشیوں کا پیغام لے کر آتا ہے۔ اس مہینے میں کسان کو اپنی محنت کا پھل سمیٹنے اور سال بھر کے لیے گندم جمع کرنے کا موقع میسر آتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ پنجاب کے دیہات میں بیساکھی ایک تہوار تھا اور اسے دھوم دھام سے منایا جاتا تھا۔ بیساکھی کے میلے لگتے تھے اور لوگ ان میلوں سے فارغ ہو کر گندم کی کٹائی میں لگ جاتے تھے۔ 
لوگ گندم کی کٹائی میں ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے۔ ایک دن ایک کی اور دوسرے دن مل کر کسی دوسرے کی گندم کاٹی جاتی تھی۔ اسے مقامی زبان میں ’ونگار‘ یا ’منگ‘ کہا جاتا تھا۔ گندم کی کٹائی کے موقعے پر ڈھول باجے کا بھی اہتمام ہوتا اور نوجوانوں کی ٹولیاں گندم کی کٹائی کے ساتھ ساتھ بھنگڑا بھی ڈالتی تھیں۔ جس سے تھکن کا احساس کم اور کام کرنے والوں کے جوش میں اضافہ ہوتا تھا۔ 
گاؤں کی عورتیں بڑی بڑی چٹوریوں میں گندم کاٹنے اور باندھنے والوں کے لیے لسی اور گڑ کا شربت لے کر آتی اور انہیں پلاتی تھیں۔ اس طرح کی 'ونگار' کے لیے کسی بارات کی طرح کھانا تیار کیا جاتا تھا جس میں سوجی اور دیسی گھی کا حلوہ سب سے خاص ہوتا تھا۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر ونگار یا منگ کا کلچر ختم ہونے لگا۔ بڑے زمیندار جدید زرعی مشینری کا سہارا لینے لگے جبکہ درمیانے اور چھوٹے طبقے میں کٹائی کے موسم میں ایک دوسرے کی مدد تو کی جاتی ہے لیکن بڑی ونگاریں اور وہ دھوم دھام ختم ہوگئی ہے۔ 
اب کی بار بیساکھ آیا ہے تو وہ ماضی سے بالکل مختلف ہے۔ کورونا وائرس نے اپنے اثرات دیہات تک بھی پہنچا دیے ہیں۔ سماجی فاصلے سے متعلق آگاہی کے باعث لوگ احتیاط برتنے لگے ہیں. ایسے میں کسانوں کے لیے گندم کی کٹائی مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ہر کوئی اپنی گندم خود کاٹنے پر مجبور ہے یا پھر مزدوروں کی تلاش میں ہے۔ 
چوہدری اصغر علی درمیانے درجے کے زمیندار ہیں جن کا تعلق پنجاب کے ضلع سرگودھا سے ہے۔ وہ خود اپنے بھائیوں، بھتیجوں اور بھانجوں کے ساتھ مل کر کٹائی کرتے تھے۔ سب مل کر ایک دوسرے کی گندم کاٹ اور سمیٹ لیتے تھے۔

کٹائی کے موقع  پر ڈھول باجے کا بھی اہتمام ہوتا ہے (فوٹو: فیس بک)

اردونیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’بڑی ونگار کا رواج تو پہلے ہی ختم ہو گیا ہے چھوٹی موٹی منگ کی روایت بھی کورونا کی وجہ سے متاثر ہوگئی ہے۔ اب اپنے بچوں کو خطرے میں ڈالنا مناسب نہیں لگ رہا۔ کٹر کی مدد لیں گے یا پھر مزدوروں کی خدمات حاصل کریں گے۔ آج کل باقی کام بند ہیں تو کٹائی کے لیے مزدور آسانی سے مل رہے ہیں۔ اگرچہ وہ ایک ایکڑ کی مزدوری کے پانچ من دانے لیتے ہیں لیکن کیا کریں گندم کاٹنی تو ہے۔‘
کچھ ایسے کسان بھی ہیں جو مزدوروں کی خدمات بھی حاصل نہیں کر سکتے کیونکہ اس سے ان کی آمدن کم ہو جاتی ہے اور انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ گجرات کے چاچا سردار خان بھی ان میں سے ایک ہیں۔ 
وہ کہتے ہیں کہ ’زمینداری کے اخراجات اتنے بڑھ گئے ہیں کہ اب کٹائی بھی مزدوروں سے کرائیں گے تو خاک بچائیں گے۔ جس سے کہو کہ ایک آدھ دن مدد کو آئے، وہ کہتا ہے کہ چاچا حکومت اور ڈاکٹر کہتے ہیں کہ دور دور رہو۔ مل جل کر کام کریں گے تو سب بیمار پڑ جائیں گے۔‘
چاچا نے اس کا حل بھی نکال لیا ہے۔ انہوں نے اپنے دونوں بیٹوں، بیوی اور بہو کو لے کر کٹائی کا آغاز کیا ہے۔ 'کوشش کر لیتے ہیں کہ کچھ فاصلہ رکھ لیں۔ لگ پڑے ہیں تو آہستہ آہستہ نمٹ ہی جائے گا۔ اپنے تو گھٹنے بھی ساتھ نہیں دیتے کہ بیٹھ کر کٹائی کروں لیکن پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی پڑے گا۔‘
وہ اپنی جوانی کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’میں نے سو لوگوں کی ونگار کے ساتھ مل کر ایک دن میں 15 ایکڑ گندم کی کٹائی بھی کی ہوئی ہے۔‘

زمینداروں کے مطابق وقت کے ساتھ بڑے پیمانے پر ونگار یا منگ کا کلچر ختم ہونے لگا (فوٹو: اردو نیوز)

چاچا سردار خان کے گھر پر تو کام کرنے والے افراد موجود تھے لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو اکیلے یا تعداد میں کم ہیں۔ مطلوب حسین بھی ان میں سے ایک ہیں۔
انہوں نے کٹر کا سہارا لے کر کٹائی تو کروا لی ہے۔ لیکن باقی مرحلے انہیں اپنے بھائی کے ساتھ مل کر ہی انجام دینا ہیں۔ 
اردو نیوز سے گفتگو میں انھوں نے بتایا کہ ’ماضی میں لوگ مدد کرتے تھے لیکن پڑھے لکھے نوجوان جب کسی نوکری میں لگ جاتے ہیں تو زمیندارہ کام بالخصوص کٹائی کے لیے بندے کم ہوتے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ باہر چلے گئے ہیں۔ اوپر سے کورونا نے رہی سہی کسر نکال دی ہے۔ کٹر سے گندم کی کٹائی کے باوجود ’ستھر‘ یعنی گندم سمیٹنے اور اکٹھی کر کے دانے نکالنے کے لیے کوئی بھی مددگار دستیاب نہیں ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اب اکیلے جان مارنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اللہ کرے کہ اگلے سال کورونا نہ ہو ورنہ معاشرے میں ایک دوسرے کی مدد کرنے کا سلسلہ تو ہمیشہ کے لیے ہی ختم ہو جائے گا۔ ہم کسی کی مدد کو جا سکیں گے اور نہ ہی ہمارے واسطے کوئی آئے گا۔‘

شیئر: