حکومت کی جانب سے ملک گیر لاک ڈاؤن میں 9 مئی تک توسیع کی گئی ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پہلی رمضان کے افطار کے بعد یہ سطور تحریر کر رہی ہوں۔ اس دوران فیس بک کے میموریز فیچر کے مرہون منت پچھلے سال پہلی رمضان کی تصاویر ٹائم لائن پر دوبارہ آگئیں۔ یوں سال گذشتہ کے پررونق رمضان کے مقابلے میں اس سال سہمی سہمی اور سمٹی سمٹی ہوئی سی دنیا کے فرق کا مزید شدت سے احساس ہوگیا۔
پتا نہیں اس وقت ملک میں کس چیز کا اطلاق ہے۔۔۔ سمارٹ لاک ڈاؤن، جزوی لاک ڈاؤن ۔۔۔ بہر حال جو بھی ہے آدھا تیتر، آدھا بٹیر ہے۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ دو ہفتے موثر حکمت عملی اپنانے کے بعد، اس لڑائی کے سب سے اہم ترین فیز میں حکومت کی ہمت جواب دیتی جا رہی ہے۔
تاجر ہوں یا مذہبی حلقے اور کچھ معاملات میں عوام بھی، جسے دیکھیں حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنے پر تلا ہوا ہے اور ریاست اپنی بات منوانے سے قاصر نظر آتی ہے۔ طاقت کا استعمال وہ کرنا چاہتی نہیں اور عوام نے بھی ٹھانی ہوئی ہے کہ عقل کی بات پر کان نہیں دھرنے۔۔۔ نوبت یہاں تک پہنچا دی ہے کہ اب ڈاکٹرز ہاتھ جوڑ جوڑ کر روز اپیلیں کرنے پر مجبور ہیں۔
سیاسی محاذ پر دنیا بھر کی قیادتیں اس وقت فرنٹ فٹ پر کھیل رہی ہیں اور اپنی رٹ کو قائم کرنے کےلیے انتہائی اقدام اٹھا رہی ہیں۔ البتہ تحریک انصاف کی حکومت کو اس بات کا کم ازکم کریڈٹ ضروردینا پڑے گا کہ اس بحران میں وزیراعظم نے اطلاعت و نشریات کا قلمدان اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔
پریس کانفرنسز کا گذشتہ ہفتے سے ایک اچھوتا فارمیٹ سامنے آیا ہے جس میں خان صاحب اپنے مشیران کے ہمراہ براہ راست بریفنگ کا آغاز کرتے ہیں پھر، بات مکمل کر کے اگلے مشیر کو مخاطب کرتے ہیں، جو کیمرہ میں دیکھ کر ٹھک سے اپنے شعبے سے متعلق معلومات دینا شروع کر دیتا ہے۔ دیکھ کر یوں گمان ہوتاہے کہ گویا وزیر اعظم خود کسی ٹاک شو کی میزبانی کر رہے ہیں اور سیاسی، ٹیکنکل، فنانشل فیلڈ کے مشیر بطور مہمان مدعو ہیں۔ بے یقینی کے اس دور میں، حکومتی سٹریٹجی کو مفصل طریقے سےبیان کرنے کی یہ مشق بہت مفید ثابت ہو رہی ہے۔
ویسے بھی تحریک انصاف اس حوالے سے ایک زرخیز جماعت ہے جس کے پاس ایسے لوگوں کی کمی نہیں ہے جو خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان کے موقف کو کس طرح لوگوں تک پہنچانا ہے۔ طریقہ کار سے اختلاف کی تو خیر کوئی گنجائش ہی نہیں ہے البتہ خصوصاً لاک ڈاؤن کے حوالے سے تحریک انصاف کی گو مگو کی پالیسی عوام کو ملے جلے سگنلز دے رہی ہے اور کنفیوژن کو بڑھا رہی ہے۔
دنیا میں شاید ہی کوئی اور وزیر اعظم ہو جو اپنے وقت کا اتنا بڑا حصہ لائیو ٹیلی ویژن اور میڈیا سےانگیج کرنے میں صرف کرتا ہوگا. میڈیا کے کردار سے ایک طرف خان صاحب شاکی دکھائی دیتے ہیں تودوسری طرف چندہ اکھٹا کرنے کے لیے ان چینلز پر ہی کرنٹ افئیر اینکرز کے ساتھ ٹیلی تھونز میں بذات خود حصہ بھی لیتے ہیں۔ یہاں یہ بات بہت حوصلہ افزا ہے کہ مشکل حالات میں بھی مخیر حضرات دل کھول کر عطیات جمع کرا رہے ہیں۔
امید ہے کہ یہ تمام کشادہ جیب لوگ جہاں لاکھوں، کروڑوں روپےخیرات کر رہے ہیں وہاں اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ وہ اپنے کاروبار، فیکٹریز اور اداروں میں ملازمین کو اس مشکل وقت میں نوکریوں سے فارغ نہیں کریں گے اور وقت پر ان کے واجبات بھی ادا کردیا کریں گے۔ کیونکہ ملازمتوں سے نکالے گئے یہ افراد کرونا کی وجہ سے معاشی عدم تحفظ کے رحم وکرم پر ہوں گے۔ ایسے وقت میں انہیں سنبھالا دینا، معاشی بوجھ اٹھانے میں حکومت پاکستان کا ہاتھ بٹانے کے مترادف ہی ہوگا۔
ایک بات تو طے ہے، چاہے بڑے سے بڑا عالمی سطح کا کرائسس ہی کیوں نہ ہو جہاں حکومتوں کو سر کھجانے کی فرصت تک نہیں ہے، تب بھی خان صاحب اور وزیر اعلٰی بزدار کا بیوروکریسی کے ساتھ میوزیکل چیئرز کا کھیل رکنے والا نہیں ہے۔ آفرین ہے کہ حکومت نے ان انتہائی کلیدی چند ہفتوں میں پنجاب کے چیف سیکرٹری سمیت بیوروکریسی میں ایک مرتبہ پھر اکھاڑ پچھاڑ کر ڈالی ہے۔
اب اس کے پیچھے چھپی حکمت سے تو صرف خان صاحب ہی آشنا ہوں گے کہ بیچ منجدھار انہیں پنجاب میں چوتھا چیف سیکرٹری تبدیل کرنے کی کیوں سوجھی۔ دوسرا سال ہے کہ پنجاب میں تجربوں کا سلسلہ ختم نہیں ہو رہا، یہ غیر عقینی صورتحال گورننس اور سیاست دونوں ہی کے لیے زہر قاتل ہے۔
تعجب کی بات ہے کہ کرونا جیسے ان دیکھے بالکل نئے بحران کے لیے سٹریٹجی بنانے میں تو حکومت زور لگاتی نظر آتی ہے اور کچھ حد تک کامیاب بھی ہوئی ہے لیکن اس ملک کے سب سے بڑے صوبے کو کیسے چلانا ہے، وہ سٹریٹیجی کیا ہونی چاہیے اس کے لیے پنجاب کو ابھی مزید تجربات سے گزرنا ہوگا۔
اردو نیوز میں شائع ہونے والے کالم اور بلاگز واٹس ایپ پر حاصل کرنے کے لیے ’’اردو نیوز بلاگز‘‘ گروپ جوائن کریں